شام کی تازہ صورت حال پر یورپی یونین کی تشویش
28 اپریل 2012یورپی یونین کے خارجہ پالیسی کے دفتر سے جمعے کے روز جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ شام میں جنگ بندی کے بعد اقوام متحدہ کے مبصرین کی موجودگی کے دوران ہونے والی مسلح خلاف ورزیاں باعث تشویش ہیں۔ یہ بیان یونین کی خارجہ امور کی چیف کیتھرین ایشٹن کی جانب سے جاری کیا گیا۔ اس بیان میں شام کے تمام متحارب گروپوں سے کہا گیا ہے کہ وہ پرتشدد سرگرمیوں کو فوری طور پر روک دیں۔
کیتھرین ایشٹن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شام میں جنگ بندی کے اصولوں کی خلاف ورزی کا عمل جاری ہے اور تشدد کی جاری لہر پر وہ گہرے تحفظات رکھتی ہیں۔ ایشٹن کے بیان میں کہا گیا کہ یہ باعث تشویش ہے کہ بارہ اپریل سے شروع ہونے والی جنگ بندی کے ساتھ ساتھ وہاں اقوام متحدہ کے مبصرین بھی موجود ہیں لیکن تشدد کی فضا بدستور قائم ہے۔
ایشٹن نے اپنے بیان میں واضح کیا ہے کہ موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شام کی حکومت جنگ بندی کی شرائط کے تناظر میں اپنی کمٹمنٹ کو پورا کرتے ہوئے شہری علاقوں سے فوج کے انخلا کا عمل مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ آبادی والے مقامات سے بھاری اسلحہ بھی ہٹائے۔ ایشٹن نے شامی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی طے کردہ شرائط کا احترام کرے۔ ایشٹن کے مطابق یہ شرائط اقوام متحدہ و عرب لیگ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کے پیش کردہ پلان کا حصہ ہیں اور اس کی سکیورٹی کونسل توثیق کر چکی ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ شامی حکومت جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے عمل کو یقینی بنائے۔ ایشٹن کا یہ بھی کہنا تھا کہ دمشق حکومت گرفتار افراد کو رہائی دینے کے علاوہ متاثرہ علاقوں تک صحافیوں کی رسائی کو بھی عام کرے۔ بیان میں اسد حکومت سے کہا گیا ہے کہ وہ متاثرہ مقامات تک انسانی امداد کے عمل کو آزادانہ طور پر شروع کرنے کی بھی اجازت دے۔ ایشٹن نے جنگ بندی کے بعد گرفتاریوں کے عمل میں پیدا ہونے والی شدت پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ایشٹن نے شام میں اقوام متحدہ کے مبصرین کی تعیناتی کو بھی جلد از جلد مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ کیتھرین ایشٹن نے شام میں مبصر مشن کی کامیابی کے حوالے سے کسی ممکنہ درخواست کے تناظر میں یورپی یونین کی جانب سے ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے مؤقف کو دہرایا ہے۔
عالمی سطح پر انسانی حقوق پر نگاہ رکھنے والے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بتایا ہے کہ جنگ بندی کے شروع ہونے کے بعد ہلاک ہوئے 362 افراد کے ناموں کی لسٹ اس کو موصول ہو گئی ہے۔ دوسری جانب امریکا بارہا کہہ چکا ہے کہ اسد حکومت جنگ بندی کی آڑ میں اپوزیشن پر کریک ڈاؤن کی پالیسی جاری رکھ سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ سال مارچ سے شروع ہونے والی اسد حکومت مخالف تحریک میں اب تک نو ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
ah/ng (AP, AFP)