شامی بحران اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کا اجلاس
28 فروری 2012جنیوا میں ہیومن رائٹس کونسل کے انیسویں اجلاس کے ایجنڈے پر شام میں پیدا شدہ پرتشدد صورت حال پر غور کو فوقیت حاصل ہے۔ اس اجلاس میں کونسل حکومتی کریک ڈاؤن کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ بھی کرے گی۔ اس کے علاوہ اسد حکومت سے اس کا بھی مطالبہ کیا جائے گا کہ حکومتی ایکشن سے متاثرہ تمام شہروں تک ملکی اور بین الاقومی امدادی اداروں کی رسائی کو ممکن بنایا جائے تا کہ وہاں پیدا شدہ پریشان کن فضا کو بہتر کیا جا سکے۔ کونسل کے خیال میں حمص سمیت کئی اور شہروں میں انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ اس بات کا امکان ہے کہ کونسل کا انیسواں سیشن چار ہفتے تک جاری رہے گا اور اس دوران شامی بحران پر وقتاً فوقتاً مختلف حوالوں سے اراکین اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔
ایک مغربی سفارتکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ انسانی حقوق کی کونسل کے اجلاس میں شام کے حامی ملک یقینی طور پر پیش کی جانے والی قرارداد کی مخالفت کریں گے۔ ان ملکوں میں ایران اور کیوبا شامل ہیں۔ ان ملکوں نے کونسل کے آج سے شروع ہونے والے اجلاس میں شامی صورت حال پر کی جانے والی بحث کی پہلے ہی مخالفت شروع کر رکھی ہے۔
فرانسیسی وزیر خارجہ ایلاں ژُوپے کے مطابق کونسل کی قرارداد کا بنیادی مقصد شام کی حکومت کی جانب سے جاری جابرانہ پالیسی کی ساری دنیا کی جانب سے جاری مذمت کو مزید تقویت دینا ہے۔ ژوپے کا مزید کہنا ہے کہ شام میں جو صورت حال پیدا ہو چکی ہے، اس پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔ برطانوی وزارت خارجہ کی جانب سے بھی ایسا ہی مؤقف سامنے آیا ہے۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے موجودہ اجلاس کے موقع پر فرانسیسی وزیر خارجہ نے رکن ملکوں سے اپیل کی ہے کہ وہ دی ہیگ میں قائم بین الاقوامی فوجداری عدالت میں شامی حکومت کے خلاف شکایت درج کرانے کے عمل کو بھی تیز کریں۔ ژُوپے نے اس یقین کا اظہار کیا ہے کہ شام کی حکومت اور اس کے سول اور ملٹری اہلکار ایک نہ ایک دن انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ اقوام متحدہ کے ماہرین کی مرتب کردہ رپورٹ میں شامی حکومت کو انسانیت کے خلاف جرائم کا قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: مقبول ملک