شامی باغی بھی انسانی حقوق کی پامالیوں کے مرتکب
14 جولائی 2012ایمنسٹی کی تفتیش کار ڈونا ٹیلا روویرا شورش زدہ شام میں کئی ہفتے گزارنے کے بعد واپس واشنگٹن لوٹی ہیں۔ ڈونا ٹیلا رویرا نے باغیوں سے متعلق کہا، ’’ وہ لوگوں کو اغوا کرتے ہیں، ہمارے پاس ثبوت ہیں کہ وہ انہیں پیٹتے ہیں، اور کچھ مواقع پر انہیں قتل بھی کر دیا گیا۔‘‘ ان کے مطابق یہ واضح ہے کہ اپوزیشن کے کچھ حامی ظالمانہ حربوں پر اتر آئے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے خاندانوں کے افراد کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تفتیش کار نے خدشہ ظاہر کیا کہ صورتحال اس سے بھی بد تر ہوسکتی ہے۔
گزشتہ روز واشنگٹن کے سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز میں خطاب کے دوران انہوں نے بتایا کہ اپوزیشن کی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے اور وقت کے ساتھ جیسے جیسے جھڑپوں میں شدت آرہی ہے انفرادی سطح پر باغی جنگجو حکومتی فورسز کے ساتھ انسانی حقوق کے برعکس برتاؤ کر رہے ہیں۔ انہوں نے باغیوں کی فری سیریئن آرمی کی جانب سے جاری کی گئیں مغوی سکیورٹی اہلکاروں کے انٹرویوز پر مشتمل ویڈیوز کا بھی حوالہ دیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تفتیش کار نے واضح کیا کہ شام میں بڑھتے ہوئے تشدد کی زیادہ ذمہ داری حکومتی فورسز پر عائد ہوتی ہے جو بغاوت دبانے کے لیے گاؤں کے گاؤں تاراج کرنے سے گریز نہیں کر رہی۔
شامی صدر بشار الاسد کے مخالفین کے مطابق ایسے ہی ایک تازہ واقعے میں حما شہر کے اطراف میں ایک گاؤں تریمسہ پر سکیورٹی فورسز نے ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے ساتھ چڑھائی کی اور دو سو سے زائد افراد کو ہلاک کیا۔ آزاد ذرائع سے اس خبر کی فوری تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن نے خون خرابے کی ذمہ داری مسلح دہشت گردوں پر عائد ہے، جن میں دمشق حکومت کے بقول القاعدہ کے ارکان بھی شامل ہیں اور انہیں غیر ملکی معاونت حاصل ہے۔
شام کے لیے اقوام متحدہ کے مبصرین کی مدت سے متعلق اگلے ہفتے فیصلہ متوقع ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تفتیش کار کے بقول اس مبصر مشن کی مدت میں توسیع اہمیت کی حامل ہے تاکہ انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق معلومات حاصل ہوسکے۔ مارچ 2011ء سے شام میں جاری شورش کے اس سلسلے میں 17 ہزار سے زائد ہلاکتیں رپورٹ کی جاچکی ہیں، جن میں حکومتی فورسز، حکومت مخالفین اور عام شہری شامل ہیں۔
(sks/ ah (Reuters