شارلی ایبدو سانحہ اور صدر اولانڈ کی بڑھتی مقبولیت
19 جنوری 2015طنز نگار ہفت روزہ جریدے شارلی ایبدو پر حملے اور اس واقعے میں بارہ افراد کے قتل، اور اس کے بعد پیرس میں مزید حملوں سے فرانسیسی حکومت جس طرح نمٹ پائی ہے، اس سے صدر فرانسوا اولانڈ کی مقبولیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
حال ہی میں ایک عوامی جائزے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ صدر اولانڈ کی ریٹنگز اکیس فیصد اضافے کے بعد چالیس فیصد ہو گئی ہیں۔
اس بارے میں جائزے کا اہتمام کرنے والی کمپنی کے فریدریک دابی کا کہنا ہے، ’’یہ عوامی جائزوں کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے۔‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی صرف ایک مثال اور ملتی ہے اور وہ سابق صدر متراں کی ہے جن کی ریٹنگز میں سن انیس سو نوّے اور اکانوے کی خلیجی جنگ کے بعد انیس فیصد اضافہ ہوا تھا۔
صدر اولانڈ ایک غیر کرشماتی شخصیت قرار دیے جاتے ہیں تاہم شارلی ایبدو کے سانحے کے بعد ان کے فرانسیسی قوم سے مبلغ خطابات اور یک جہتی کی اپیلوں نے عوام کے خاصا متاثر کیا ہے۔
پھر وہ مناظر بھی فرانسیسی عوام نے دیکھے کہ صدر اولانڈ نے کس طرح شارلی ایبدو کے ایک بلکتے کالم نگار کو پیرس کی ریلی کے دوران گلے لگا کر پرسا دینے کی کوشش کی۔
تاہم برطانیہ می ریڈنگ یونیورسٹی میں فرانسیسی سیاست کے ماہر اینڈریو کناپ کا کہنا ہے کہ اولانڈ کی مقبولیت میں اضافہ عارضی ثابت ہوگا اگر انہوں نے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر فرانس میں صورت حال معمول پر آ گئی تو لوگوں کی توجہ دوبارہ معاشی نمو اور روزگار ایسے مسائل کی جانب مبذول ہو جائے گی اور اولانڈ کی مقبولیت میں ایک مرتبہ پھر گراوٹ دیکھنے میں آئے گی۔
فرانس سے تعلق رکھنے والے امور سیاست کے ماہر تھوماس گینول کا بھی کہنا ہے کہ اولانڈ کی مقبولیت طویل المدتی نہیں ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مستقبل میں چاہے اب جو ہو سو ہو، صدر فرانسوا اولانڈ پر چومکھی حملوں اور شدید ترین تنقید کا وقت گزر چکا ہے کیوں کہ انہوں نے شارلی ایبدو کے واقعے کے بعد خود کو ایک قابل رہنما ضرور ثابت کیا ہے، اور اس بات کی ان کو داد دی جانا چاہیے۔
shs/at