سینکڑوں تارکین وطن والا بحری جہاز اطالوی حکام کے کنٹرول میں
2 جنوری 2015اطالوی حکام نے بتایا کہ عملے کے فرار ہونے کے بعد اس جہاز پر صرف فضائی راستے سے ہی پہنچا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اطالوی اہلکار اس جہاز پر اترے اور اب اس کا کنٹرول انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ایک سرکاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ جس وقت اطالوی اہلکاروں نے اس جہاز کا کنٹرول سنبھالا، یہ بحری جہاز اطالوی علاقے ’کاپو دے لوئکا‘ سے چالیس میل دور کھلے سمندر میں تھا۔ حکام کے بقول یہ مال بردار بحری جہاز 73 میٹر لمبا ہے اور سیرا لیون میں رجسٹرڈ ہے۔ اس جہاز پر تقریباً 450 غیر قانونی تارکین وطن بھی سوار ہیں۔
اس واقعے سے صرف دو روز قبل سینکڑوں غیرقانونی تارکین وطن کے ساتھ ایک بحری جہاز کو اطالوی ساحل کی جانب بڑھتے ہوئے ہنگامی طریقے سے قانونی قبضے میں لے لیا گیا تھا۔ اطالوی حکام نے مزید بتایا کہ سمندری آمد و رفت کے ادارے سے جب رابطہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ’ایزادین‘ نامی اس جہاز کو قبرص سے جنوبی فرانس کی ’سیت‘ نامی بندرگاہ تک کے سفر کی اجازت تھی۔ کوسٹ گارڈز کے ایک ہوائی جہاز نے ابتدائی طور پر اس جہاز کا پتا لگایا تھا۔ تب ’ایزادین‘ کی رفتار پچاس سمندری میل تھی اور وہ اطالوی ساحل سے اسّی میل کے فاصلے پر تھا۔
عملے کے فرار ہونے کے بعد اس جہاز پر سوار غیر قانونی تارکین وطن میں سے ایک نے ایک ریڈیو پیغام کے ذریعے کوسٹ گارڈز کو مطلع کیا تھا کہ عملہ جہاز سے کود کر فرار ہوگیا ہے۔ اس موقع پر اطالوی حکام نے قریب ہی گشت پر موجود آئس لینڈ کی ایک کشتی سے مدد بھی طلب کر لی تھی۔ آئس لینڈ کی یہ کشتی یورپی یونین کے ’فرنٹیکس مشن‘ کا حصہ تھی۔ یہ کشتی فوراً ہی وہاں پہنچ تو گئی تھی تاہم خراب موسم کی وجہ سے جہاز پر سوار ہونا ممکن نہ ہو سکا تھا۔
شام، لیبیا اور عراق کے علاوہ کئی افریقی ممالک میں جاری مسلح تنازعات کی وجہ سے تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد اٹلی کا رخ کر رہی ہے۔ اس تناظر میں آئے دن تارکین وطن سے بھری کشتیوں کو سمندر میں حادثے پیش آتے ہیں۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے ابھی حال ہی میں یورپی سمندری حدود کی نگرانی کے منصوبے’ٹریٹون‘ کا آغاز بھی کیا گیا تھا۔ اس مشن کا مقصد اٹلی کے ساحلی علاقوں اور یورپی سمندری حدود میں داخل ہونے والی غیر قانونی تارکین وطن کی کشتیوں کو تلاش کرتے ہوئے انہیں خشکی تک پہنچانا ہے۔ اس مقصد کے لیے سات بحری اور چار ہوائی جہازوں کے علاوہ ایک ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیا جائے گا۔