سکیورٹی فورسز کی کارروائی، بلوچستان میں آٹھ باغی ہلاک
11 اگست 2013صوبائی ہوم سیکرٹری اکبر درانی نے ہفتے کے دن میڈیا کو بتایا کہ چھ باغی بولان ڈسٹرکٹ کے مچھ نامی علاقے میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ بولان صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے جنوب مشرق میں 70 کلو میٹر دور واقع ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اکبر درانی کے حوالے سے بتایا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ان باغیوں کے ایک ٹھکانے کو محاصرے میں لیا تو انہوں نے فائرنگ شروع کر دی، جس کے بعد سکیورٹی فورسز اور جنگجوؤں کے مابین جھڑپ شروع ہو گئی۔
اکبر درانی کے بقول ہلاک ہونے والے یہ جنگجو منگل کے دن اس واردات میں ملوث تھے، جس میں تین سکیورٹی اہلکاروں سمیت مجموعی طور پر چودہ افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے میں ان جنگجوؤں نے ایک جعلی سکیورٹی چیک پوائنٹ پر ایک گاڑی کو رکوا کر فائرنگ کر دی تھی۔ بلوچ لبریشن آرمی کے ترجمان میراک بلوچ نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
درانی نے مزید بتایا کہ سکیورٹی فورسز کی ایک کارروائی کے نتیجے میں مزید دو باغی مستونگ کے علاقے میں مارے گئے۔ ان پر الزام تھا کہ ان کی طرف سے کیے گئے ایک بم دھماکے کے نتیجے میں ایک خاتون اور دو بچے مارے گئے تھے۔
مقامی انتظامیہ کے اعلیٰ اہلکار سہیل وحید نے بھی جنگجوؤں کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ درانی نے میڈیا کو معلومات فراہم کرتے ہوئے مزید کہا کہ باغیوں کی لاشیں کوئٹہ منتقل کر دی گئی ہیں۔
بلوچستان میں علیحدگی پسندوں نے سیاسی خود مختاری کے لیے 2004ء سے مسلح تحریک شروع کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ صوبے میں موجود قدرتی وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی میں سے زیادہ حصہ انہیں حصہ دیا جائے۔ یہی صوبہ فرقہ واریت کے حوالے سے بھی انتہائی حساس خیال کیا جاتا ہے۔
جمعے کے دن کوئٹہ کے نواح میں عید کے موقع پر ایک مسجد پر فائرنگ کردی گئی تھی۔ سنی مسجد پر ہونے والے اس حملے سے ایک روز قبل ہی طالبان کے ایک خود کش حملہ آور نے کوئٹہ میں پولیس افسران پر ایک حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں تین اعلیٰ پولیس اہلکاروں سمیت 38 افراد مارے گئے تھے۔