سکواش: ہم بلندیوں سے پستیوں میں کیسے گرے ؟
27 مئی 2013جہانگیر خان دس، ہاشم خان سات جان شیر چھ اور اعظم خان چار بار برٹش اوپن چیمپئن بنے۔ مگر اب بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ تیس بار سرخرو اور پچیس بار رنر اپ رہنے والے پاکستان کا رواں برس کوئی کھلاڑی برطانوی سکواش کورٹس میں ہی قدم نہیں رکھ سکا۔
سن 1973ء اور 1975ء کے برٹش اوپن فائنلسٹ گوگی علاؤالدین نے اس صورتحال کا ذمہ دار نئی نسل کے کھلاڑیوں کو ٹھہرایا ہے۔ گوگی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’آج کھلاڑی محنت سے جی چراتے ہیں مگر ان کی ڈیمانڈز ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں۔ میں مانتا ہوں کہ حالات بدل چکے ہیں مگر ہر وقت پیسہ پیسہ کرنے سے بات نہیں بنے گی، کامیابی خون پسینہ ایک کرنے سے ملتی ہے۔‘‘
انیس سو پچھتر کے برٹش اوپن چیمپئن قمر زمان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہم پانچ چھ گھنٹے تک ٹریننگ کرتے تھے۔ پھٹے ہوئے گیند اور ریکٹ سے کھیلتے تھے، یہی جنون اور پاگل پن ہمیں اعلیٰ مقام تک لے گیا مگر آج کا کھلاڑی ایک گھنٹہ سے زیادہ ٹریننگ نہیں کر سکتا۔ یہ گھنٹے گھنٹے کے کھلاڑی ہیں، اس لیے ان کی ناکامیوں کا ذمہ دار فیڈریشن کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ کھلاڑی خود قصور وار ہیں۔‘‘
دوسری جانب پاکستانی کھلاڑی سہولتوں کی عدم دستیابی کا رونا روتے ہیں۔ پاکستان کے موجودہ نمبر دو کھلاڑی فرحان محبوب کہتے ہیں کہ سیاست کی وجہ سے ہماری ٹریننگ متاثر ہوتی ہے۔ فرحان کے بقول کھلاڑی سیاست کے عادی نہیں ہوتے۔ جان شیر اور جہانگیر خان کی طرح جب انہیں بھی مستقبل نظر آئے گا تو وہ بھی محنت کریں گے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ’’ہمیں ٹکٹ اور ڈیلی الاونس دینے سے انکار کیا جاتا ہے، جس سے ٹریننگ متاثر ہوتی رہتی ہے۔ غیر ملکی دورے پر لاکھوں خرچ ہوتے، جو ہم اپنی جیب سے کیسے ادا کر سکتے ہیں۔‘‘
دریں اثنا اگلے ماہ فرانس میں ہونیوالی ورلڈ اوپن سکواش چیمپئن شپ کے لیے سرکردہ کھلاڑی عامر اطلس خان کو متنازعہ انداز میں پاکستانی ٹیم میں شامل نہیں کیا گیا۔ ایشیائی چیمپئن عامر اطلس خان نے فٹنس مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے فیڈریشن کو درخواست کی تھی کہ انہیں ٹرائل سے مستثنٰی قرار دیا جائے مگر پاکستان سکواش فیڈریشن نے ان کی یہ درخواست مسترد کر دی۔‘‘
گوگی علاؤالدین نے فیڈریشن کے اس فیصلے کو سراہا اور کہا کہ اس سے میرٹ کی پاسداری ہوگی اور کھلاڑیوں کو یہ باور کرانے میں مدد ملے گی کہ ان کے لیے کوئی شاٹ کٹ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جہانگیر اور جان شیر اپنے فن کے بے تاج بادشاہ تھے، اس لیے ان کو ٹرائل کے بغیر ٹیم میں شامل کیا جاتا رہا۔ عامر اطلس کو ایسی ڈیمانڈ کرنے سے پہلے اس مقام تک بھی پہنچ کر دکھانا چاہیے۔‘‘
گوگی علاؤالدین کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹیلنٹ بہت ہے صرف لگن کی ضرورت ہے۔
دریں اثنا حالیہ ایشیائی سکواش چہمپئن شپ کے کامیاب انعقاد کے بعد سکواش کے عالمی کپ دو ہزار پندرہ کی میزبانی بھی پاکستان کو مل گئی ہے۔ نائن الیون کے بعد ملک میں عالمی سطح کا یہ پہلا بڑا اسپورٹس ایونٹ ہوگا۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد