سفارتی کوششیں ناکام ہو گئیں، مصری حکومت
7 اگست 2013بدھ کے روز مصری صدارتی محل سے جاری کردہ اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عبوری حکومت اب یورپی یونین اور امریکا کی سفارتی کوششوں کے حوالے سے مایوس نظر آ رہی ہے۔ یہ کوششیں مصر کے اس بحران کے حل کے لیے کی جا رہی ہیں جو کہ محمد مرسی کی عوامی مظاہروں اور فوجی مداخلت کے بعد صدر کے عہدے سے معزولی کے بعد پیدا ہوئی ہے۔
تین جولائی کو مصری افواج نے معزول صدر مرسی کو فارغ کر کے ان سمیت اخوان المسلمون کے کئی اعلیٰ عہدیداروں کو حراست میں لے لیا تھا۔ مرسی کے خلاف شدید عوامی مظاہرے ہو رہے تھے۔ مظاہرین کا موقف تھا کہ مرسی ایک منتخب صدر ہونے کے باوجود ملک اور ملکی اداروں کو آمرانہ طریقے سے چلا رہے تھے اور یہ بھی کہ وہ ملک کو تیزی سے اسلامی انتہا پسندی کی طرف دھکیل رہے تھے۔
سفارت کاری
یورپی یونین کے شرقِ اوسط کے لیے نمائندے بیرنارڈینو لیون اور امریکی نائب وزیر خارجہ ولیم برنز نے اتوار کے روز مرسی کے حامیوں اور مصری فوج کی حمایت یافتہ عبوری حکومت کے عہدیداروں سے تفصیلی ملاقاتیں کی تھیں۔ اعلیٰ سفارت کار اب بھی اس بحران کو حل کرنے کی کوشش میں ہیں۔
لیون نے عبوری وزیر اعظم حازم الببلاوی سے ملاقات کے بعد زیر حراست اخوان کے سینئر ر ہنما خیرت الشاطر سے جیل میں ملاقات بھی کی تھی۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق لیون اور برنز نے اتوار کے روز الشاطر سے ملاقات کی اور ان کے ہمراہ قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ بھی تھے۔ ماری ہارف کا کہنا تھا کہ یہ ملاقات مصر میں خونریزی روکنے اور مصر میں متحارب جماعتوں کو بات چیت پر آمادہ کرنے کی غرض سے کی گئی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی صورت ملک کے عوام جمہوری طریقے سے ایک نئی سويلین حکومت منتخب کر سکتے ہيں۔
تاہم اخوان المسلمون کے ترجمان کے مطابق خيرت نے لیون اور برنز کو گرم جوشی دکھائے بغیر اپنے مؤقف کا ایک مرتبہ پھر اعادہ کیا کہ مرسی کی مصری صدر کی ’’قانونی حیثیت‘‘ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
مزید جھڑپیں
دوسری جانب آج بدھ کے روز معزول صدر مرسی کے حامیوں اور اسکندریہ شہر میں مقیم افراد کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ اس واقعے میں چھیالیس افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مصر کے حکومتی ذرائع کے مطابق منشیہ نامی علاقے کے مکین اس وقت مرسی کے حامیوں سے الجھ پڑے جب وہ اس علاقے سے مصری افواج کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے گزر رہے تھے۔
مرسی کی اقتدار سے بے دخلی سے لے کر اب تک ڈھائی سو کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اخوان المسلمون کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی دباؤ کے باوجود مظاہرے جاری رکھیں گے۔