سرمائی اولمپکس: بھارت کے شیوا کیشاوان میڈل کے لیے پرعزم
29 جنوری 2014بھارت کے سلائیڈر شیوا کیشاوان اور دو دوسرے ایتھلیٹس اگلے ماہ روس کے شہر سوچی میں شروع ہونے والے سرمائی گیمز میں آزاد اور انفرادی طور پر شریک ہوں گے۔ دوسرے ایتھلیٹس کے نام ندیم اقبال اور ہیمانشُو ٹھاکُر ہیں۔ اقبال اور ٹھاکر اسکائرز ہیں۔ ونٹر اولمپکس میں یہ تینوں کھلاڑی اپنے ملک کی نمائندگی سے محروم ہوں گے کیونکہ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کی ممبر شپ کو کرپشن الزامات کے تحت انٹرنیشنل اولمپک ایسوسی ایشن نے سردست معطل کر رکھا ہے۔
بھارت کی ونٹر گیمز فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل روشن لال ٹھاکر کا کہنا ہے کہ انڈین اولمپک ایسوسی ایشن کی معطلی کے تناظر میں سرمائی کھیلوں میں شرکت کے خواہشمند ایتھلیٹس بہت پریشان اور رنجیدہ ہیں۔ روشن لال ٹھاکر کا مزید کہنا ہے کہ ان کھلاڑیوں کی ناراضی بجا ہے کیونکہ انہوں نے کئی برس ان کھیلوں کی مہارت حاصل کرنے میں صرف کیے ہیں اور اب اولمپکس کھیلوں میں شرکت کے وقت اُن کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی نہیں ہے۔
بھارتی سلائیڈر شیوا کیشاوان ونٹر اولمپک گیمز میں بھارت کی نمائندگی کرنے والے پہلے ایتھلیٹ ہیں۔ وہ ایشیائی ونٹر گیمز میں چار مرتبہ طلائی تمغہ حاصل کر نے کے علاوہ تیز رفتار کے ساتھ لُوژ (Luge) کھیل میں ریکارڈ بھی قائم کر چکے ہیں۔ کیشاوان نے ہمالیہ پہاڑ کی ڈھلانوں میں اپنے اختراع شدہ سلیڈ (Sled) کے ساتھ برسوں پریکٹس کرتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے سلیڈ پر پہاڑوں سے اترتے ہوئے بسا اوقات ایک سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زائد رفتار بھی حاصل کر لیتے تھے۔ کیشاوان کے مطابق بھارت میں لُوژ کا کوئی ایک ٹریک بھی نہیں ہے اور اِس باعث انہیں اختراع شدہ سلیڈ یا سلیج پر پریکٹس کرنا پڑتی ہے۔
شیوا کیشا وان اِن دنوں فرانس میں لُوژ کے تربیتی مراحل طے کر رہے ہیں۔ جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے بذریعہ ای میل سوالات کا جواب دیتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اُن کی کئی سالوں کی مشق کے بعد وہ آج ایک عالمی شہرت کے اسپپورٹس مین بن پائے ہیں۔ کیشاوان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کچھ عرصہ قبل اُن کے پاس زندگی گزارنے کے لیے مناسب رقم بھی نہیں ہوتی تھی لیکن اپنی لگن اور دُھن کی وجہ سے وہ نام کما پائے ہیں۔ بھارتی ایتھلیٹ کے مطابق اپنی مثبت سوچ کی وجہ سے وہ اگلے ماہ پانچویں مرتبہ سرمائی اولمپکس میں شریک ہو رہے ہیں۔
شیوا کیشا وان کوہِ ہمالیہ کے ایک دور دراز کے گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ اُن کی ماں اطالوی اور باپ بھارتی ہیں۔ ان میں سلیڈ یا سلیج کا شوق پچپن ہی میں پیدا ہو گیا تھا۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ لکڑی یا دھات کی سکیز (Skis) استعمال کیا کرتے تھے۔ انہوں نے سولہ برس کی عمر میں پہلی مرتبہ سن 1998 میں ہونے والے سرمائی اولمپکس کے لیے کوالیفائی کیا تھا۔ وہ لُوژ اسپورٹ میں کم سن ترین کوالیفائی کرنے والے ایتھلیٹ بھی ہیں۔ انٹرنیشنل لُوژ فیڈریشن نے شیوا کیشا وان کی سرپرستی کی اور اُن کو امریکا بھی تربیت کے لیے روانہ کیا تھا۔ یہ اہم ہے کہ شیوا کیشا وان اپنے اسپانسرز کے تعاون سے اولمپکس میں شرکت کی مناسب کِٹ حاصل کر پائے ہیں جب کہ ندیم اقیال اور ہیمانشُو ٹھاکُر ابھی تک اپنی اپنی کِٹ حاصل کرنے کے لیے فی کس 24 ہزار ڈالر جمع کرنے کی کوشش میں ہیں۔