سرد جنگ قصہِ ماضی ، امن پھر بھی نہیں
17 مارچ 2013اس ادارے کے مطابق آج کل دنیا میں اٹھارہ جنگیں جاری ہیں، محدود پیمانے پر لڑی جانے والی جنگوں کی تعداد 25 ہے جبکہ ایسے تنازعات کی تعداد 43 ہے، جنہیں انتہائی پُر تشدد کہا جا سکتا ہے۔
ایسے میں قیام امن کی کوششیں کرنے والے ادارے بالخصوص اقوام متحدہ دن رات مصروف عمل ہیں۔ آج کل اقوام متحدہ کے امن مشنوں کی تعداد 14 ہے، جن میں تقریباً ایک لاکھ چَودہ ہزار افراد خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان تمام مشنوں کے لیے سالانہ بجٹ 7.23 ارب ڈالر ہے۔ یہ رقم خاص طور پر امریکا، جاپان، برطانیہ اور جرمنی فراہم کر رہے ہیں۔
زیادہ خوش فہمی سے اجتناب
اتنے بھاری اخراجات کی روشنی میں خاص طور پر مغربی ممالک مسلح تنازعات پر قابو پانے کے لیے ایسے اقدامات کرنا چاہتے ہیں، جن پر جہاں تک ہو سکے، لاگت بھی کم آئے اور وہ مؤثر بھی زیادہ ہوں۔
بین الاقوامی تنازعات پر قابو پانے کی کوششوں میں جرمنی آج کل اپنے کردار کا نئے سرے سے تعین کرنے میں مصروف ہے۔ جرمنی کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ خود اُس کی جانب سے یا نیٹو، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کی سطح پر بھی تنازعات میں مداخلت کے امکانات محدود ہیں۔
جرمن وزیر دفاع تھوماس ڈے میزیئر نے امسالہ میونخ سکیورٹی کانفرنس میں اسی حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کہا تھا:’’ہمیں اپنے امکانات کے بارے میں زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ایسا کوئی عالمی ڈھانچہ نہیں ہو گا، جس کی باگ ڈور ہمارے ہاتھوں میں ہو گی۔‘‘
جرمن وزیر دفاع کا حقیقت پسندانہ تجزیہ یہ تھا کہ جرمنی اور اُس کے ساتھی ممالک محض تنازعات کے حل کے سلسلے میں اپنا ایک کردار ادا کر سکتے ہیں۔
مداخلت کے محدود امکانات
یہ کردار بھی کس قدر محدود ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ آج کل شام کے حالات سے لگایا جا سکتا ہے۔ جرمنی اور یورپی یونین کے دیگر ممالک صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار باغیوں کے حامی ہیں اور اُنہیں مدد فراہم کرنے کے لیے بھی اصولی طور پر تیار ہیں۔ اختلافِ رائے صرف اس بارے میں ہے کہ یہ مدد کس نوعیت کی ہونی چاہیے۔
فرانس اور برطانیہ پُر زور انداز میں باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے کی وکالت کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ضرورت پڑنے پر وہ اکیلے بھی یہ کام کر گزریں گے۔
یورپی یونین کے کئی دیگر رکن ممالک بشمول جرمنی اس حق میں نہیں ہیں۔ اس کی دو وجوہات ہیں: ایک تو یہ کہ وہ اس وقت باغیوں کی نظریاتی وابستگی کو درست طور پر جانچنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ وہ اس لیے کہ ابھی اس بارے میں کوئی معتبر معلومات دستیاب نہیں ہیں کہ مسلح اپوزیشن کے اندر انتہا پسند مسلمان عناصر کی قوت کتنی ہے۔
لیبیا کے تجربے کے بعد یورپی یونین کے رکن ملک یہ نہیں چاہتے کہ ہتھیار ایسے جہادیوں کے قبضے میں چلے جائیں، جو بعد میں اِنہی ہتھیاروں کو مغربی مفادات کے خلاف استعمال کر سکتے ہوں۔
تاہم رکن ممالک کو سب سے زیادہ خدشہ اس بات کا ہے کہ ہتھیاروں کی فراہمی سے اس تنازعے کو اور ہوا ملے گی اور یہ آگ خطّے کے دیگر ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
جہاں سعودی عرب، قطر اور ترکی کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپی یونین باغیوں کے حامی ہیں، وہاں روس، چین، ایران اور عراق اسد کا ساتھ دے رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ کسی ایک یا دوسرے فریق کی زیادہ واضح انداز میں مدد کرنے سے کوئی نئی جنگ شروع ہو جائے۔ پسِ پردہ کوششیں البتہ بدستور جاری ہیں۔
سرگرم حلقوں کے متضاد مفادات
شام کی مثال کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ فوجی مداخلت کی راہ میں عموماً کس طرح کی مشکلات حائل ہوتی ہیں۔ وہاں مختلف فریق ہیں، جن کے مفادات ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں اور وہ کسی مشترکہ مؤقف پر نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ حتیٰ کہ عالمی سلامتی کونسل کے ارکان کے درمیان بھی کسی مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاقِ رائے نہیں ہو پا رہا۔
علوم اور سیاست کی جرمن فاؤنڈیشن SWP سے وابستہ ماہر سیاسیات کرسٹیان موئلنگ کے مطابق بین الاقوامی امن مشنوں کے سلسلے میں بھی یہی مشکل کارفرما ہوتی ہے کہ وہاں ایک ساتھ مختلف مفادات کی حامل طاقتیں کارفرما ہوتی ہیں۔ اُنہیں اقوام متحدہ یا نیٹو یا پھر پیرس، برلن اور لندن سے مختلف طرح کے اہداف ملے ہوتے ہیں۔
موئلنگ بتاتے ہیں:’’ان تمام سرگرم حلقوں کی سرگرمیوں کو مربوط بنانا ناگزیر ہوتا ہے۔ تاہم جہاں ایسی کوششیں مسئلے کے حل کی کلید ہوتی ہیں، وہیں سب سے بڑا مسئلہ بھی بن جاتی ہیں کیونکہ وہاں موجود تمام سرگرم حلقوں کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ اپنے اپنے اہداف کو ایک دوسرےکے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش میں پھر اُنہیں بہت سے سمجھوتے بھی کرنا پڑتے ہیں۔‘‘
یہی کچھ شام میں ہو رہا ہے، جہاں صرف باغیوں اور حکومت کے درمیان ہی جنگ نہیں ہو رہی ہے بلکہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اِس پورے خطّے میں بالا دستی کس کی ہو گی۔
دو سال سے جاری تنازعے میں اندازاً تقریباً 70 ہزار انسان مارے جا چکے ہیں لیکن بین الاقوامی مداخلت کی اثر پذیری محدود ہے اور ملوث فریقین کے درمیان دور دور تک کسی مفاہمت کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
K.Knipp/aa/ab