روس کے ساتھ زمینی تبادلوں کا فیصلہ یوکرین پر چھوڑ دیا، ٹرمپ
وقت اشاعت 15 اگست 2025آخری اپ ڈیٹ 15 اگست 2025آپ کو یہ جاننا چاہیے
- مقبوضہ مغربی کنارے میں توسیع کا اسرائیلی منصوبہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی، اقوام متحدہ
- اسرائیلی اور روسی افواج کو جنسی تشدد کے ارتکاب کے الزامات کا سامنا
- ٹرمپ غیر ملکی صحافیوں کی غزہ تک رسائی کے حق میں
- پاکستان اور بھارت میں شدید بارشیں جاری
- ٹرمپ پوٹن ملاقات سے قبل، روس اور یوکرین کے درمیان جھڑپیں
روس کے ساتھ زمینی تبادلوں کا فیصلہ یوکرین پر چھوڑ دیا، ٹرمپ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان ممکنہ زمینی تبادلوں کا فیصلہ مکمل طور پر کییف پر منحصر ہے۔ اپنے روسی ہم منصب سے جمعے کے روز ملاقات کے لیے ایئر فورس ون میں الاسکا روانگی کے دوران صحافیوں سے گفتگو میں ٹرمپ نے کہا کہ اس معاملے میں فیصلہ یوکرین ہی کرے گا۔ انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنے تعلقات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’وہ ایک ذہین شخص ہیں، طویل عرصے سے یہ کام کر رہے ہیں اور میں بھی، ہم دونوں صدر ہیں، ہمارے درمیان اچھا تعلق اور باہمی احترام موجود ہے۔‘‘
ٹرمپ بعد ازاں الاسکا میں پوٹن سے ملاقات کریں گے۔ روانگی سے قبل انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشل‘ پر لکھا: ’’بڑا امتحان!!!۔‘‘ امریکی صدر کے ہمراہ وزیر خارجہ مارکو روبیو، وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ، وزیر تجارت ہاورڈ لٹ نک اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف بھی موجود ہیں۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں توسیع کا اسرائیلی منصوبہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی، اقوام متحدہ
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے کہا ہےکہ مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیوں کے قیام کا اسرائیلی منصوبہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ نئے اسرائیلی منصوبے کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے کے قریب ہزاروں نئے مکانات تعمیر کیے جائیں گے۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق نے خبردار کیا کہ یہ اقدام قریبی فلسطینی آبادی کو جبری بے دخلی کے خطرے سے دو چار کر سکتا ہے اور ایسی جبری بے دخلی جنگی جرم کے زمرے میں آئے گی۔
اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیرِ خزانہ بیزالیل اسموٹریچ نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیوں کے طویل عرصے سے مؤخر کیے گئے منصوبے کو آگے بڑھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ قدم ’’فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن‘‘ کر دے گا۔
اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے ترجمان نے کہا کہ یہ منصوبہ مغربی کنارے کو الگ تھلگ ٹکڑوں میں تقسیم کر دے گا اور یہ کہ ’’کسی قابض طاقت کے لیے اپنی شہری آبادی کو مقبوضہ علاقے میں منتقل کرنا جنگی جرم ہے۔‘‘
یورپی یونین کا ردعمل
یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کایا کالاس نے مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کو بین الاقوامی قانون سے متصادم قرار دیا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس منصوبہ پر عمل نہ کیا جائے۔ کالاس کے مطابق اسرائیلی حکام کا آبادی کاری منصوبہ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو مزید کمزور کرے گا اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آئے گا۔
دریں اثناء جرمن حکومت نے بھی اس اسرائیلی منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ یہ منصوبہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گا اور دو ریاست حل کی کوششوں کو پیچیدہ بنا دے گا۔ جرمن وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’نئی بستیوں کا قیام بین الاقوامی قانون اور سکیورٹی کونسل کی قراردوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے دو ریاستی حل کے مذاکرات اور بین الاقوامی عدالت برائے انصاف کی جانب سے مغربی کنارے سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ پیچیدگی کا شکار ہو جائے گا۔‘‘
نیتن یاہو کے گریٹر اسرائیل کے تصور پر عرب دنیا برہم
فلسطینی اتھارٹی اور عرب ممالک نے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے اس بیان کی مذمت کی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ گریٹر اسرائیل کے تصور کے حق میں ہیں۔ گو نیتن یاہو نے اس کی وضاحت نہیں کی مگر اس تصور کے حامی مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پر اسرائیل کا مکمل کنٹرول چاہتے ہیں۔ اس تصور کے بعض حامی تو بعض عرب ریاستوں جن میں اردن اور لبنان کے حصے بھی آتے ہیں، اسرائیل میں شامل کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔
خیال رہے کہ فی الحال مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں تقریباً سات لاکھ اسرائیلی آبادکار 27 لاکھ فلسطینیوں کے درمیان رہتے ہیں۔ اسرائیل نے 1980 میں مشرقی یروشلم کو اپنے ساتھ ضم کر لیا تھا، جسے زیادہ تر ممالک تسلیم نہیں کرتے، تاہم مغربی کنارے پر اسرائیل نے باضابطہ طور پر اپنے قبضے کا اعلان نہیں کیا۔
زیادہ تر عالمی طاقتوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی بستیوں کی توسیع دو ریاستی حل کے تصور کو نقصان پہنچا رہی ہے کیونکہ اس سے فلسطینی علاقے ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہے ہیں۔
اسرائیلی اور روسی افواج کو جنسی تشدد کے ارتکاب کے الزامات کا سامنا
اقوامِ متحدہ نے جمعرات کے روز اسرائیل اور روس کو خبردار کیا ہے کہ ان کی افواج کو جنسی تشدد کے مرتکب مشتبہ پارٹیز کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اس کے پاس قابلِ اعتبار شواہد ہیں جن سے ان خلاف ورزیوں کا پتا چلتا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک اس فہرست میں شامل ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں، جس میں میانمار کی فوج، سوڈانی فوج اور فلسطینی عسکری تنظیم حماس بھی شامل ہیں، جن پر تنازعات میں جنسی تشدد، بشمول جنسی زیادتی کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنے کے الزامات کا سامنا ہے۔
اقوام متحدہ کی اس سالانہ رپورٹ کے مطابق، ’’اسرائیلی سکیورٹی فورسز، روسی سکیورٹی فورسز اور ان سے منسلک مسلح گروہوں کی جانب سے بعض اقسام کے جنسی تشدد کے پیٹرنز سے متعلق سنگین خدشات کی وجہ سے، ان پارٹیز کو آئندہ رپورٹنگ مدت میں ممکنہ شمولیت کے لیے نوٹس پر رکھا گیا ہے۔‘‘
یہ خدشات بنیادی طور پر ’’حراستی مراکز میں ریکارڈ کی گئی خلاف ورزیوں‘‘ سے متعلق ہیں۔
اسرائیل کے حوالے سے اس رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ قابلِ اعتبار معلومات کے مطابق فوجیوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے جنسی تشدد کے طریقے اپنائے، جن میں جنسی اعضا پر تشدد، طویل جبری برہنگی اور توہین اور ذلت آمیر طریقے سے بار بار تلاشی لینا شامل ہے۔
فروری میں اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ اس نے پانچ فوجیوں کے خلاف ایک فلسطینی قیدی کے ساتھ جنسی تشدد کے الزامات کے تحت کارروائی کی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ قابلِ اعتبار شواہد موجود ہیں کہ روسی فوجیوں نے بھی یوکرینی جنگی قیدیوں کے خلاف مبینہ طور پر جنگی قوانین کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ رپورٹ کے مطابق یہ خلاف ورزیاں یوکرین اور روس میں 50 سرکاری اور 22 غیر سرکاری حراستی مراکز میں ریکارڈ کی گئیں۔
ان کیسز میں جنسی اعضا پر تشدد کے کئی دستاویزی واقعات شامل تھے، جیسے کہ برقی جھٹکے دینا، مار پیٹ اور جلانا، اور زبردستی برہنہ کرنا یا طویل برہنگی، جو تذلیل کرنے اور اعتراف یا معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
ٹرمپ پوٹن ملاقات سے قبل، روس اور یوکرین کے درمیان جھڑپیں
مشرقی یوکرین میں روسی حملوں کے نتیجے میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہو گئے، جن میں ایک ریلوے اسٹیشن کا مکینک بھی شامل ہے، جبکہ کم از کم ایک درجن افراد زخمی ہوئے، حکام نے منگل کو بتایا۔
یوکرینی ریلوے کمپنی نے ٹیلیگرام پر بیان میں کہا،’’روسی دہشت گردوں نے لوزووا کی ریلوے تنصیبات پر بڑے پیمانے پر حملہ کیا۔‘‘
فروری 2022 میں یوکرین پر روسی جارحیت کے بعد سے روس کی جانب سے یوکرین کے ریلوے نظام کو مسلسل نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
ماسکو کی جانب سے فضائی حملوں میں تیزی اس وقت دیکھی جا رہی ہے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے دی گئی جمعے کی ڈیڈ لائن قریب ہے۔ صدر ٹرمپ متنبہ کر چکے ہیں کہ اگر جمعے کے روز صدر پوٹن کے ساتھ ان کی ملاقات میں کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو روس کے خلاف بڑے پیمانے پر پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔
رات کے وقت مشرقی خطے خارکیف کے شہر لوزووا پر ہونے والے حملوں میں ایک مسافر ٹرین خاکستر ہو گئی جب کہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو نقصان پہنچا۔
خارکیف کے گورنر اولیگ سینگوبوف کے مطابق لوزووا میں دو افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک یونٹ کا ڈیوٹی مکینک تھا۔ یوکرینی ریلوے کے مطابق اس حملے کے بعد متعدد ٹرینوں کا رخ بدل دیا گیا ہے۔
صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روس نے اس کارروائی میں ایرانی ساختہ شاہد ڈرونز کا استعمال کیا اور اس کے لیے پچیس سے زائد ڈرونز استعمال کیے گئے۔
لوزووا کے میئر سرگیئی زیلنسکی نے اس حملے کو ’’شہر پر جنگ کے آغاز سے اب تک کا سب سے بڑا حملہ‘‘ قرار دیا۔
یہ تمام حملے اس وقت ہو رہے ہیں جب استنبول میں تین مرحلوں پر مشتمل امن مذاکرات کسی ممکنہ جنگ بندی کے حوالے سے کسی پیش رفت میں ناکام رہے ہیں اور دونوں فریقوں کے مؤقف میں اب بھی شدید اختلاف موجود ہے۔
پاکستان اور بھارت میں شدید بارشیں جاری
گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں بھارت اور پاکستان میں طوفانی بارشوں سے آنے والے سیلاب کے باعث کم از کم 120 افراد ہلاک جبکہ درجنوں لوگ لاپتا ہیں۔ ریسکیو اہلکاروں نے دونوں پڑوسی ممالک کے دو پہاڑی اضلاع سے تقریباً 1,600 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔
بھارت کے ہمالیائی خطوں اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں کلاؤڈ برسٹ کے واقعات میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ ان دونوں ہی ممالک کے پہاڑی علاقے سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے حوالے سے حساس ہیں۔
ریسیکو اہلکار بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے چوستی میں شدید بارشوں اور سیلاب کے بعد لاپتا ہونے والے افراد کی تلاش میں مصروف ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ جمعرات کو آنے والے شدید سیلاب کی وجہ سے اس علاقے میں کم از کم ساٹھ افراد ہلاک جب کہ اسی سے زائد لاپتا ہو گئے۔
حکام کے مطابق جمعرات کے روز کلاؤڈ برسٹ کے بعد آنے والے شدید سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے واقعات کے بعد کم از کم تیس سو افراد کو بچا لیا گیا۔
تاہم کہا جا رہا ہے کہ بہت سے افراد سیلابی ریلوں میں بہہ گئے اور اب تک لاپتا ہیں۔ گزشتہ روز کم از کم 50 شدید زخمیوں کو مقامی ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا۔
دوسری جانب پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی حصوں میں شدید بارشوں کے سبب سیلابی صورت حال کے نتیجے میں کم از کم 60 افراد ہلاک ہو گئے۔ جبکہ ریسکیو اہلکاروں نے لینڈ سلائیڈنگ سے متاثرہ ایک پہاڑی ضلع میں پھنسےتیرہ سو افراد کو ریسکیو کیا۔ مقامی حکام کا تاہم کہنا ہے کہ متاثرہ علاقوں میں کم از کم 35 افراد لاپتا ہیں۔
پاکستان میں 26 جون سے اب تک بارش سے جُڑے واقعات میں 360 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
خیبر پختونخوا کے صوبائی ایمرجنسی سروس کے ترجمان بلال فیضی نے بتایا کہ ریسکیو اہلکاروں نے کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد مانسہرہ ضلع کی سران ویلی میں پھنسے ہوئے 1,300 سیاحوں کو بچایا۔ یہاں جمعرات کو شدید بارش کے بعد سیلابی صورت حال پیدا ہو گئی تھی۔
ادارت: شکور رحیم، افسر اعوان
ٹرمپ غیر ملکی صحافیوں کی غزہ تک رسائی کے حق میں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر ملکی صحافیوں کی جنگ زدہ غزہ پٹی میں جا کر رپورٹنگ کے حق میں بیان دیا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی صحافیوں کو غزہ میں جانے کی اجازت نہیں دیتا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ صحافیوں کی غزہ تک رسائی کے حق میں ہیں۔ صحافیوں سے بات چیت میں ان سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا وہ اسرائیل پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ صحافیوں کو غزہ جانے اور اس جنگ زدہ پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی کوششوں پر رپورٹنگ کرنے کی اجازت دیں، تو امریکی صدر نے کہا کہ وہ چاہیں گے کہ ایسا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی اعتراض نہیں کہ صحافی وہاں جائیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا، ’’جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ اگر آپ صحافی ہیں تو یہ ایک بہت خطرناک صورتحال ہے، لیکن میں چاہوں گا کہ یہ ہو۔‘‘
گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ انہوں نے فوج کو مزید غیر ملکی صحافیوں کو غزہ پٹی تک رسائی دینے کا حکم دیا ہے۔ یروشلم میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اسرائیل کی ان کوششوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے جن کے ذریعے انسانی ہمدردی کے تحت امداد غزہ کے عوام تک پہنچائی جا رہی ہے۔
غزہ کی جنگ کے آغاز سے اب تک غیر ملکی صحافی صرف اس صورت میں غزہ پٹی جا سکے ہیں جب وہ اسرائیلی فوج کے ساتھ ’’اِمبیڈڈ‘‘ یعنی ان کی جانب سے مدعو کیے گئے ہوں۔ اب تک ایسے صحافیوں کو کچھ خاص علاقوں تک جانے کی ہی اجازت ملی ہے اور زیادہ تر مقامی صحافیوں کو ہی زمینی حالات کی کوریج کرنا پڑی ہے۔
ابتدا میں یہ واضح نہیں تھا کہ آیا نیتن یاہو کی یہ ہدایت اس پالیسی میں کسی حقیقی تبدیلی کا اشارہ ہے یا نہیں۔
صحافیوں کے تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق غزہ میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں کے آغاز سے اب تک کم از کم 230 صحافی اور میڈیا ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں۔
سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر فلسطینی عسکری تنظیم حماس کے ایک بڑے دہشت گردانہ حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہو گئے تھے جب کہ عسکریت پسند ڈھائی سو سے زائد کو یرغمال بنا کر غزہ لے گئے تھے۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں وسیع تر فضائی اور زمینی عسکری آپریشن کا آغاز کیا تھا۔
حماس کے زیرانتظام چلنے والی غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق غزہ میں اسرائیلی کارروائیوں کے آغاز سے اب تک 61,000 سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔