روس اور چين نے شام کے خلاف قرارداد ويٹو کر دی
23 مئی 2014جرمن نيوز ايجنسی ڈی پی اے کے مطابق روس اور چين نے يہ کہتے ہوئے قرارداد کی مخالفت کی ہے کہ اسے شام ميں فوجی مداخلت کے ليے استعمال کيا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ ميں روسی سفير وٹالی چرکن نے اس بارے ميں بات کرتے ہوئے کہا کہ قرارداد کا مسودہ بين الاقوامی فوجداری عدالت کو استعمال ميں لاتے ہوئے شام ميں سياسی بدحالی کو ہوا دينے اور آگے جا کر بيرونی فوجی مداخلت کی بنياد رکھنے کے ليے استعمال ميں لايا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ ميں فرانسيسی سفير جيرارڈ اراؤڈ کا روسی سفير کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سلسلے ميں بات کرنا تک بيکار ہے۔ قرارداد پر ووٹنگ سے پہلے اراؤڈ نے سلامتی کونسل پر زور ديا تھا کہ وہ قرارداد کو منظور کر لے، جس ميں دمشق حکومت اور شامی باغيوں دونوں کو انٹرنيشنل کرمنل کورٹ سے رجوع کرنے کا کہا گيا تھا کيونکہ دونوں ہی انسانی حقوق کی مبينہ خلاف ورزيوں کے مرتکب پائے گئے ہيں۔ فراسيسی سفير کے بقول پندرہ رکنی کونسل کی ذمہ داری بنتی ہے کہ شامی عوام کو انصاف دلايا جائے۔ اراؤڈ نے مزيد کہا، ’’ويٹو جرائم پر پردہ ڈال دے گا، يہ انصاف پر ويٹو کے برابر ہو گا۔‘‘ واضح رہے کہ شام کے حوالے سے اس تازہ قرارداد کا مسودہ فرانس کی جانب سے تيار کيا گيا ہے۔
امريکا سميت بارہ ديگر ممالک نے اس قرارداد کے حق ميں ووٹ ديا تھا۔ روس و چين کے ويٹو کرنے کے فيصلےکی امريکا نے مذمت کی ہے۔ اقوام متحدہ ميں امريکی سفير سمانتھا پاور نے کہا، ’’افسوس ہے کہ روسی فيڈريشن کی جانب سے شامی حکومت کی حمايت، خواہ وہ کچھ بھی کرے، کے سبب شامی عوام کو آج انصاف نہيں مل سکے گا۔‘‘ انہوں نے مزيد کہا، ’’وہ جرائم تو ديکھيں گے، ليکن سزا نہيں ديں گے۔‘‘
اقوام متحدہ ميں شامی سفير بشار جعفری نے کہا ہے کہ قرارداد کا مقصد شام ميں جلد ہونے والے صدارتی انتخابات کو منفی انداز سے متاثر کرنا ہے۔
دريں اثناء اقوام متحدہ کے سيکرٹری جنرل بان کی مون نے سلامتی کونسل ميں گزشتہ روز شام کے حوالے سے اپنی تيسری رپورٹ پيش کی، جس کے مطابق خانہ جنگی کے شکار ملک شام ميں زمينی صورتحال مزيد خراب ہو چکی ہے۔ رپورٹ ميں کہا گيا ہے کہ سويليز کے خلاف تشدد ترک کرنے کے کونسل کے مطالبے کے باوجود شامی حکومت اور باغيوں، دونوں ہی کی طرف سے شہريوں کے خلاف حملے جاری ہيں جبکہ قريب 241,000 افراد کو محاصرے ميں رکھ گيا۔
ايسے شامی باشندے جنہيں فوری طور پر مدد درکار ہے، کی تعداد اب 9.3 ملين تک پہنچ گئی ہے، جن ميں سے ساڑھے تين ملين ايسے علاقوں ميں رہ رہے ہيں، جہاں تک رسائی انتہائی مشکل ہے۔
شام ميں مارچ 2011ء سے جاری مسلح حکومت مخالف تحريک ميں اب تک سيريئن آبزرويٹری فار ہيومن رائٹس کے مطابق قريب ايک لاکھ باسٹھ ہزار افراد لقمہ اجل بن چکے ہيں۔ روس اور چين، شام کے حوالے سے اقوام متحدہ کی سکيورٹی کونسل ميں پيش کردہ چار قراردادوں کو مسترد کر چکے ہيں۔