دوسرے ٹیسٹ میں ناکامی، پاکستانی ٹیم کا شیرازہ بکھر گیا
13 جنوری 2014سابق پاکستانی کوچ محسن خان نے منصوبہ بندی کے فقدان کو شکست کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیم کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ محسن کے بقول ’’دو سال پہلے یہی ٹیم وائٹ واش کر رہی تھی۔ کھلاڑی متحد تھے اب ہر کوئی اپنے لیے کھیل رہا ہے اور بد قستمی سے ٹیم بکھر چکی ہے‘‘۔ محسن نے کہا عرفان اور بھٹی جیسے باولرز سے بغیر سوچے سمجھے مسلسل درجنوں اوورز کرائے گئے، جس سے وہ ان فٹ ہو گئے۔
ایک اور سابق کھلاڑی وسیم باری کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس اس بارسیمنگ پچز پر ٹیسٹ میچ کھیل کر پاکستان نے اپنے پاؤں پرخود کلہاڑی ماری۔’’ اسپن پاکستانی ٹیم کی طاقت رہی مگر غیر سازگار پچز پر ورلڈ کلاس اسپنر سعید اجمل بھی اپنا جادو نہ جگا سکے اور دو ٹیسٹ میچوں میں مخالف ٹیم کے صرف تین اسپیشلسٹ بلے باز ہی ان کے جال میں آسکے ہیں‘‘۔
کپتان مصباح الحق بھی ہوم سیریز میں غیرموافق پچز تیار کرنے پر اپنی حیرت نہ چھپا سکے اور کہا کہ ایسی پچز پر کھیلنے سے انہیں پریشانی کا سامنا ہے، جن پر پانچویں دن بھی گیند ٹرن نہیں ہو رہا۔ مصباح نے کہا کہ جس طرح کی وکٹیں تیار کی گئی ہیں اس پر انہیں بے حد حیرانگی ہوئی ہے۔
پاکستانی بیٹنگ کے دانت جوکھانے کے پہلے ہی نہ تھے اب دکھانے کے بھی نہیں رہے۔ جنوبی افریقہ اور زمبابوے کے بعد سلیکٹرز کے منظور نظر محمد حفیظ سری لنکن میڈیم پیسرز کے سامنے بھی بے نقاب ہوگئے۔ وہ گزشتہ چودہ ٹیسٹ اننگز میں صرف ایک نصف سینچری بنا سکے ہیں۔ مسلسل ناقص کارکردگی کا دفاع کرتے کرتے اب حفیظ کے اپنے کوچ باسط علی کے صبر کا پیمانہ بھی چھلک پڑا ہے۔
باسط نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ’’ ٹیسٹ ٹیم بنانے کا ہمارے ہاں کوئی معیار نہیں۔ حفیظ کو ون ڈے کی کارکردگی پر ٹیسٹ کھلا دیا گیا اب حارث سہیل جیسے باصلاحیت کھلاڑی کہاں جائیں‘‘۔
سابق کپتان وقاریونس کا کہنا ہے کہ حفیظ اور خرم منظور جیسے کھلاڑیوں کی کمزوریاں سری لنکن باؤلرز نے عیاں کردی ہیں اس لیے اظہر علی اور شان مسعود کی ٹیسٹ ٹیم میں واپسی ضروری ہے۔
یونس خان اور مصباح ہی اس سیریز میں بھی بالترتیب دو سوانتالیس اور دوسو تینتیس رنز کے ساتھ سرفہرست ہیں مگرخرم منظور، اسد شفیق اور احمد شہزاد جیسے نوجوان بیٹسمین اپنا لوہا منوا نہ سکے۔ اس بارے میں یونس خان کا کہنا تھا کہ تجربے کی کمی ان کے آڑے آرہی ہے اور وقت کے دھارے میں بہہ کر یہ کھلاڑی بھی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنا سیکھ جائیں گے۔
دوسرے ٹیسٹ میں پاکستان کے لیے واحد اچھا شگن سرفراز احمد کی چوہتر رنز کی اننگز تھی، جو گزشتہ چار برسوں میں کسی بھی پاکستانی وکٹ کیپر کا ٹیسٹ کرکٹ میں بہترین اسکور ہے۔ پانچ سال سے ٹیم میں جگہ کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے سرفراز نے اعتراف کیا کہ کارکردگی دکھانے کے لیے انہیں شدید دباؤ کا سامنا تھا۔
دیار غیر میں سری لنکا نے کسی صف اول کی ٹیم کے خلاف نو سال بعد ٹیسٹ سیریز میں برتری حاصل کی ہے اور شارجہ میں اس کے برقرار رکھنے کا دارومدار دوسرے ٹیسٹ کے سینچری میکر مہیلا جے وردنے جیسے کرکٹرز کی فٹنس پر ہوگا۔ جن کا ہاتھ بری طرح زخمی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کو کوچ دیووٹمور کے الوداعی ٹیسٹ کو یادگار بنانے کے لیے اچھی کارکردگی دکھانی پڑے گی۔