دنیا کا مہنگا ترین مینڈھا کروڑوں روپے میں فروخت
29 اگست 2020چھ ماہ کا یہ مینڈھا بریڈنگ کے شعبے سے وابستہ چارلی بوڈن کی ملکیت تھا اور انہوں نے اسے ایک شیپ فارمرز کنسورشیم کو فروخت کیا۔ اسکاٹش نیشنل ٹیکسل سیل میں اس مینڈھے کے لیے بولی دس ہزار پاؤنڈ سے شروع ہوئی لیکن وہاں موجود متعدد پارٹیاں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر بولی لگاتی رہیں اور یوں اس مینڈھے کی قیمت بڑھتی ہی چلی گئی۔
ڈبل ڈائمنڈ نامی اس مینڈھے کو تین کسانوں کے ایک کنسورشیم نے خریدا ہے، جنہیں امید ہے کہ وہ اس کے ذریعے مزید بھیڑوں کی بریڈنگ کریں گے اور ان کی سرمایہ کاری منافع بخش کاروبار میں تبدیل ہو سکے گی۔ جیف ایکن ایک فارم مینیجر ہیں اور وہ بھی خریداروں میں شامل تھے۔ ان کا کہنا تھا، '’’اگر بریڈنگ کی بات کی جائے تو پھر چھوٹی چھوٹی خصوصیات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے، بال، رنگ، سر کی بناوٹ، سب کچھ۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’منفرد جینز حاصل کرنے کے لیے ہمیں اتنی قیمت ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔‘‘ شیپ فارمنگ سے منسلک افراد کو ان دنوں معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے۔ بہت ہی کم ایسے فارمر ہوتے ہیں، جو اتنی زیادہ رقم ادا کرنے کی سکت رکھتے ہوں۔
دنیا کا مہنگا ترین کبوتر، قیمت 15 لاکھ ڈالر
قبل ازیں اسی طرح سن دو ہزار نو میں ایک بھیڑ دو لاکھ تیس ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوئی تھی لیکن اس مرتبہ وہ عالمی ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا ہے۔ ٹیکسل نسل کی بھیڑیں اور مینڈھے ہالینڈ کے ایک چھوٹے سے جزیرے ٹیکسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ ٹیکسل شیپ سوسائٹی کے مطابق بریڈنگ کے لیے عام طور پر ایک بھیڑ کی فروخت ہزاروں یورو یا لاکھوں روپے میں ہوتی ہے۔
ٹیکسل طرز کے ان مینڈھوں کی نسل کا آغاز کی تاریخ نامعلوم ہے لیکن گوشت کے حوالے سے انہیں بہترین قرار دیا جاتا ہے۔ ڈچ ٹیکسل مینڈھوں اور بھیڑوں نے اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے ستر کی دہائی میں انگلش بریڈرز کی توجہ حاصل کی تھی لیکن اس وقت قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ان کی درآمد ممکن نہ ہو سکی تھی اور انگلش بریڈرز نے فرانسیسی بھیڑوں کی تجارت شروع کر دی تھی۔ تاہم اسی عشرے کے اواخر میں برطانوی قوانین تبدیل ہوئے تو اس نسل کی بھیڑوں اور مینڈھوں کی تجارت ممکن ہو سکی تھی۔
یہ نسل برطانوی فوڈ مارکیٹ سے بہت مطابقت رکھتی ہے۔ یہ نہ صرف سخت موسم کو آسانی سے برداشت کر لیتی ہے بلکہ انتہائی مناسب عرصے میں اس قدر بڑی ہو جاتی ہے کہ اسے برطانوی قصاب خانوں کو فروخت کر کے منافع کمایا جا سکتا ہے۔
ا ا / ع س (ڈی پی اے، اے ایف پی)