دنیا سے جذام کی بیماری ختم کیوں نہیں ہو رہی؟
23 جنوری 202526 جون کو دنیا بھر میں جذام کے خلاف عالمی دن منایا جاتا ہے۔ جرمنی میں جذام اور تپ دق ریلیف ایسوسی ایشن (ڈی اے ایچ ڈبلیو) کے مطابق یورپ میں تو اس بیماری کا خاتمہ ہو چکا ہے لیکن بہت سے غریب ممالک میں ابھی تک اس کو شکست نہیں دی جا سکی۔ دنیا بھر میں اس انفیکشن کی وجہ سے عمر بھر کے لیے معذور ہونے والے افراد کی تعداد تقریباً 30 لاکھ بنتی ہے۔
ڈی اے ایچ ڈبلیو کی ریسرچ کوآرڈینیٹر کرسٹا کاسانگ کے مطابق اس بیماری کے خلاف ویکسین کی تیاری سے صورت حال یکسر بدل سکتی ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں کہ ایک ویکسین کی تیاری میں بار بار تاخیر ہوئی ہے اور اس میں بار بار رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
کرسٹا کاسانگ کے مطابق اب ایک نئی ویکسین ہے، جس کی منظوری کا عمل اب ایک نئے اور اہم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ تاہم یہ ویکسین مستقبل قریب میں دستیاب نہیں ہو گی۔ کاسانگ کہتی ہیں: ''اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو تقریباً دس برسوں میں ویکسین منظور ہو سکتی ہے۔‘‘
پاکستان: تیس برسوں سے جذام اور تپ دق کے خلاف جنگ میں مصروف جرمن ڈاکٹر
یہ جرمن ماہر کہتی ہیں کہ ویکیسن میں تاخیر کی بنیادی وجہ جذام پر توجہ نہ دینا ہے۔ وہ کہتی ہیں، ''جذام ایک نظرانداز شدہ بیماری ہے، جس کا مطلب ہے کہ صنعتی ممالک بنیادی طور پر اس سے متاثر نہیں ہوتے۔ دلچسپی کا فقدان ہے اور ان ممالک میں، جہاں جذام کی بیماری ہوتی ہے، یہ بنیادی طور پر وہ لوگ ہوتے ہیں، جو غربت سے متاثر ہوتے ہیں یا جن کے لیے کوئی لابی کام نہیں کرتی، کوئی ان کی وکالت نہیں کرتا۔‘‘
یہ کوئی اتفاق نہیں ہے کہ جذام عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی بھی ''نظر انداز شدہ بیماریوں‘‘ (این ٹی ڈی ایس) میں سے ایک ہے۔ اس بیماری کے تقریباً تمام نئے کیسز ترقی پذیر اور غریب ممالک میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
بہت سے کیسز میں متاثرہ افراد دور دراز کے علاقوں میں رہتے ہیں یا انہیں طبی دیکھ بھال تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ لہذا بیکٹیریل انفیکشن کا بروقت علاج نہیں کیا جاتا، جس سے سوزش بڑھ جاتی ہے۔ تاہم اگر وقت پر اینٹی بائیوٹک دوائیں لے لی جائیں تو یہ مرض مستقل معذوری کے بغیر ٹھیک ہو سکتا ہے۔
ایک طرف تو نظر آنے والی معذوریوں کو روکنے کے لیے علاج بہت دیر سے شروع ہوتا ہے اور دوسری طرف جذام کے مریضوں کو اکثر عمر بھر کی بدنامی اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ا ا / ک م (ڈی پی اے)