خاموشی سے آگاہی تک: ماہواری اور آرٹ
17 مئی 2025پاکستان میں اکیسویں صدی میں بھی خواتین اور بچیاں ’’ماہواری یعنی مخصوص ایّام، حالتِ حیض یا پیریڈ ز‘‘ سے منسوب فرسودہ اور توہم پر مبنی باتوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ سب سے بڑا وہم جس نے ان کے اذہان کو جکڑ رکھا ہے وہ معاشرے اور رشتہ داروں کا ڈر ہے۔ یعنی تکلیف یا مشکل کی شکار بچی کو گائینی ڈاکٹر کے پاس لے جانے کو عزت کا جنازہ نکالنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور دوسرا بڑا ''خوف‘‘ ناپاکی کا ہوتا ہے۔ جیسے باورچی خانے میں جانا، آٹا گوندھنا اور اچار ڈالنا منع کیا جاتا ہے۔ یعنی ماہواری کے بعد ناخن نہ کاٹنے والی بچی یا خاتون کو ''ناپاک ہاتھوں والی‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔
پیریڈ پاورٹی یا غربت
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں صنفی عدم مساوات، غربت، اور حفظانِ صحت کی سہولیات کی کمی نوجوان لڑکیوں کی ماہواری سے متعلق صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ ماہواری کے دوران بدنامی، ہراسانی، اور سماجی دباؤ لڑکیوں کی تعلیم، آزادی اور فیصلہ سازی کے حق کو محدود کر دیتا ہے۔
یونیسف کے مطابق پاکستان میں 60 ملین تولیدی عمر کی خواتین میں سے صرف 4 ملین سینیٹری نیپکنز استعمال کرتی ہیں، جبکہ باقی غیر محفوظ متبادل اپناتی ہیں۔ پیریڈ پاورٹی خاص طور پر غریب گھرانوں کو متاثر کرتی ہے، جہاں خواتین ضروری مصنوعات کی استطاعت نہ ہونے کے باعث انفیکشنز اور تولیدی صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں، جو ان کے معیارِ زندگی کو بری طرح متاثر کرتے ہیں۔
ماہواری میں حفظانِ صحت
پاکستان میں کام کرنے والے ایسے کئی نجی و غیر سرکاری ادارے جو بلا جھجک کمیونٹی میں ماہواری سے جڑی فرسودہ باتوں ، اس کی وجوہات اور مسائل کے حل پر بات کرتے ہیں جیسے کے سینٹیکس، یونیسیف، واٹر ایڈ، ماہواری جسٹس، بیٹھک ، دستک فاؤنڈیشن، چانن ڈیویلپمنٹ ایسوسی ایشن اور ادارہ تعلیم و آگہی وغیرہ ۔ ماہواری جیسے اہم موضوع پر کمیونٹی میں کئی سالوں سے کام کرنے والی ویمن رائٹس ایکٹیوسٹ فاطمہ جعفر نے بتایا، ’’میں نے ملک بھر میں ماہواری سے متعلق صحت بخش رویوں کو فروغ دینے اور فرسودہ سماجی رسومات کے خلاف آگاہی پیدا کرنے کے لیے تربیتی سیشنز کا انعقاد کیا ہے۔ میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ مختلف علاقوں میں ماہواری کو چھُپانے کے لیے تقریباً 100 متبادل کوڈ ورڈز استعمال کیے جاتے ہیں‘‘ ۔انہوں نے بتایا کہ ان الفاظ پر ایک کتاب جلد شائع کی جا رہی ہے۔
ایک تربیتی سیشن کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا،’’ لڑکوں کا کہنا تھا کہ وہ اندازہ لگا لیتے ہیں جب لڑکیاں سُرخ نیل پالش لگائیں، کالے کپڑے پہنیں یا ناخوشگوار موڈ میں ہوں، تو وہ 'ایّام‘ میں ہوتی ہیں۔ یہ فرسودہ رویے معاشرتی سوچ کا حصہ بن چکے ہیں۔ تاہم، جب انہیں ان رسومات سے جڑی مشکلات اور خواتین کو درپیش جسمانی و ذہنی دباؤ کے بارے میں آگاہ کیا گیا، تو انہیں پہلی بار احساس ہوا کہ ان کے گھروں کی خواتین کس قدر تکلیف سے گزرتی ہیں۔ جب تک مرد اس عمل کو سمجھ کر ساتھ نہیں دیں گے، معاشرہ خواتین اور بچیوں کے لیے محفوظ، باعزت اور دوستانہ نہیں بن سکے گا۔‘‘
ماہواری اور حفظان صحت
ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ ماہواری کے دنوں میں غسل لینا سختی سے منع ہے، اس سے بلیڈنگ رک جاتی ہے۔ ماہرِ نفسیات عصمہ طورخم کا کہنا ہے کہ نہانا ماہواری کے دوران حفظان صحت کو یقینی بناتا ہے، انفیکشن کو روکنے میں مدد کرتا ہے، اس سے موڈ بہتر ہوتا ہے اور پٹھوں کو سکون ملتا ہے۔ اگر نہانے کے پانی میں اروما تھراپی تیل شامل کر لیا جائے اور یوگا یا تنفّسی ورزش یعنی سانس کی ایکسرسائز کی جائے، تو ہارمونز کے اتار چڑھاؤ سے پیدا ہونے والا چڑچڑا پن اور مزاج کی اداسی میں حیرت انگیز طور پر بہتری آتی ہے۔
آرٹ کے ذریعے ماہواری کی آگاہی
زہرا شلوانی، جو ایک سماجی کارکن اور ثقافتی ورثے کی ماہر ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو ایک انٹرویو میں بتایا، ’’حال ہی میں کراچی کے علاقے لیاری میں ایک آرٹ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا، جہاں نوعمر بچیوں نے ماہواری سے متعلق اپنے خیالات کو تصویری آرٹ کے ذریعے پیش کیا۔ اس کا مقصد ان مفروضوں کو دور کرنا تھا جو ماہواری سے جڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ صحت مند سوچ کو فروغ دینا بھی، تا کہ بچیاں اپنے اندر کے خوف اور الجھن کو تخلیقی اظہار کے ذریعے دور کرسکیں اور اس پر بات ہو سکے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''عام طور پر بچیاں ماہواری کے بارے میں بہت کم جانتی ہیں اور اپنے جسم کے ساتھ ایک غیر صحت مند تعلق رکھتی ہیں، جس کی وجہ سے وہ ماہواری کو تکلیف، شرمندگی اور بوجھ سمجھتی ہیں۔ درحقیقت انہیں اپنے ہارمونز کے نظام کو سمجھتے ہوئے ان چند دنوں کو مثبت انداز میں لینا چاہیے۔ اپنے جسم کو آرام دینا اور اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ اس عمل میں گھر والوں کی سپورٹ بہت اہم ہے تاکہ بچیاں اس قدرتی عمل کو نفرت یا حقارت سے نہ دیکھیں۔ مجھے ان ڈری سہمی بچیوں کو زندگی کی طرف واپس لانے پر فخر ہے، جو ماہواری سے جڑی توہمات کی وجہ سے خود اعتمادی کھو چکی تھیں۔ اسکولوں، خاص طور پر سیکنڈری سطح پر ایسی سرگرمیوں کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ والدین سے بات چیت بھی بہت اہم ہے تاکہ بچیاں لازمی ضروری معلومات حاصل کر سکیں۔‘‘
زہرا شلوانی کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ نجی شعبے کے ساتھ شراکت داری کرے، جس کا مقصد ماہواری سے متعلق صحت اور صفائی کے بارے میں سماجی رویوں میں تبدیلی لانا، کم لاگت سینیٹری پیڈز تیار کرنا اور سینیٹری مصنوعات پر ٹیکس میں کمی یا خاتمے کے لیے کام کرنا ہو اور عوامی سطح پر آگاہی مہم بھی چلائی جا سکے تاکہ اس حوالے سے مزید بہتر پیش رفت ہوسکے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ