حکومت اور طالبان کے مذاکرات ’’مقتدر قوتوں کی ضرورت ہو گی‘‘
6 مارچ 2014حکومتی اور طالبان مذاکراتی کمیٹیوں نے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے جمعرات کے روزملاقات کی۔ اس ملاقات کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان کے مطابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو ہر قسم کی دہشت گردی سے پاک کرکے عوام کے جان و مال کا تحفظ یقینی بنانا اور قیام امن حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ انہوں نے کہا کہ امن کے بغیر پاکستان کو ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنا ممکن نہیں۔’’بطور وزیراعظم یہ میرا آئینی، دینی، قومی، اخلاقی اور انسانی فریضہ ہے کہ میں آگ اور خون کا سلسلہ بند کر کے ملک اور عوام کو امن دوں۔ میں اپنی یہ ذمہ داری نبھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرونگا ‘‘۔ وزیراعظم نے مزید کہا کہ فیصلہ سازی کے نئے مرحلے میں بھی کمیٹیوں کی بھی باہمی مشاورت راہنمائی اور رابطہ کاری کی ضرورت رہے گی۔
اس ملاقات کے بعد ذرائع ابلاغ کے نمائندون سے گفتگو کرتے ہوئے طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ دونوں کمیٹیوں کے ارکان نے وزیر اعظم کو آگاہ کیا ہے کہ اب مذاکرات رابطے اور سہولت کاری کے مرحلے سے نکل کر نتیجہ خیز مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں، جس کے لیے ایک مزید مؤثر حکومتی کمیٹی تشکیل دینے کی اشد ضرورت ہے۔ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ’’رابطے تو ہو گئے، دروازہ کھل گیا ۔اب دروازہ کھلنے کے بعد کئی مسائل ایسے آئیں گے کہ اس میں مقتدر قوتوں کی ضرورت ہوگی۔ وہ با اختیار ہوں اور وہ معاملات کو جلدی سے نمٹا سکیں۔ قیدیوں کا مسئلہ ہے، معاوضہ ہے اور وہاں سے فوج کی واپسی ہے۔ ان سارے معاملوں میں مقتدر حلقوں کے بغیر کام آگے نہیں بڑھے گا۔ ہمیں اب ان حلقون کا تعاون حاصل ہو گا ‘‘۔ مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ طالبان قیادت سے ملاقات کے لیے جلد ہی ان کی مذاکراتی کمیٹی کے نمائندے شمالی وزیرستان کا دورہ بھی کریں گے۔
حکومتی کمیٹی کے کوآرڈینٹر اور وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ انہوں نے وزیر اعظم سے التماس کیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کو موثر اور ٹھوس بنانے کے لیے زیادہ بااختیار فورم تشکیل دیں۔ اس فورم میں کس کو شامل ہونا چاہیے؟ اس بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں عرفان صدیقی نے کہا کہ ’’ اگر اس فیصلے پر پہنچتے ہیں کہ ایک نئی کمیٹی ہونی چاہیے جو فیصلہ سازی کا اختیار رکھے اور تمام ادارے اس میں شامل ہوں۔ اس کے اندر افراد کا تعین وزیر اعظم خود کریں گے‘‘۔
دوسری جانب مقتدر قوتوں یعنی فوج کو مذاکرات میں شامل کرنے کے بارے میں سیاسی جماعتوں کے راہنماؤں کی رائے منقسم ہے۔ حکمران مسلم لیگ (ن) اس کی اتحادی جمیعت علماء اسلام (ف) اور اپوزیشن تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی کے مطابق ملک میں قیام امن کے لیے فوج کے مذاکرات کا حصہ بننے میں کوئی مسئلہ نہیں۔ جمیت علماء اسلام(ف) کے راہنما مولانا عطاء الحق کا کہنا ہے کہ " مذاکرات کی اصل کنجی فوج کے پاس ہے اور فوج کو اس میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر طالبان جنگ بندی کا اعلان کرتے ہیں اور مذاکرات پر آمادہ ہیں تو پھر فوج کو آگے آنا چاہیے۔ اصل فریق فوج اور طالبان ہیں"۔
تاہم اپوزیشن جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم فوج کے شدت پسندوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے حق میں نہیں۔ ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی خواجہ سہیل منصورکا کہنا ہے کہ فوج آئین، قانون اور اخلاقی طور پر ان مذاکرات کا حصہ نہیں بن سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ ظاہر ہے کہ پاک فوج ان لوگوں کے ساتھ کبھی بھی مذاکرات کی میز پر نہیں بیٹھےگی جن لوگوں نے پاک فوج کے ہزاروں سینکڑوں جوانوں کو شہید کیا ہوا ہے‘‘۔
تجزیہ کاروں کے مطابق فوج کے کسی حاضر سروس افسر کے لیے ان مذاکرات میں حصہ لینا شاید ممکن نہ ہو تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ خود فوجی قیادت ہی کرے گی کہ انہیں مذاکرات کا حصہ بننا چاہیے یا نہیں۔