جنوبی یورپ کے لیے روسی گیس پائپ لائن منصوبہ ترک، پوٹن
2 دسمبر 2014روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے پیر کے دن اپنے دورہ ترکی کے دوران اعلان کیا کہ ان کی حکومت جنوبی یورپ کے لیے ’ساؤتھ اسٹریم پائپ لائن‘ نامی منصوبے کو آگے نہیں بڑھائے گی بلکہ توانائی کے شعبے میں ترکی کے ساتھ تعاون بڑھانے پر غور کیا جائے گا۔ پوٹن نے اس موقع پر یورپی ممالک پر الزام عائد کیا کہ دراصل وہ اس منصوبے پر کام کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ یوکرائن کے تنازعے کی وجہ سے روس اور یورپی ممالک میں تناؤ کی کیفیت برقرار ہے اور اس تازہ پیشرفت کو ابھی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
روسی حکام کا کہنا ہے کہ یورپی کمیشن دراصل سیاسی مقاصد کی بنیاد پر اس پائپ لائن منصوبے کی مخالفت کر رہا ہے جبکہ کمیشن کے مطابق اس منصوبے سے شاید یورپی یونین میں مسابقت کے قوانین کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ ساؤتھ اسٹریم منصوبے کے تحت 930 کلو میٹر طویل پائپ لائن تعمیر کی جانا تھی۔ یہ منصوبہ اکتوبر 2013ء میں بلغاریہ میں شروع ہوا تھا لیکن رواں برس جون میں یورپی کمیشن نے اس پر اعتراض کر دیا تھا، جس کی وجہ سے یہ تعطل کا شکار ہو چکا ہے۔
روسی صدر پوٹن نے انقرہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’حقائق کو دیکھا جائے تو ہمیں ابھی تک بلغاریہ سے کوئی اجازت نہیں ملی۔ ہمیں یقین ہے کہ موجودہ صورتحال میں روس اس منصوبے پر کام جاری نہیں رکھ سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یورپ اس منصوبے پر کام نہیں چاہتا تو اس پر کام نہیں ہوگا۔
یہ امر اہم ہے کہ ترکی اور روس کے مابین شام اور یوکرائن کے تنازعات پر اختلافات پائے جاتے ہیں تاہم روسی صدر پوٹن نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے ملاقات میں باہمی تجارتی امور پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان دونوں رہنماؤں نے گیس سپلائی، سیاحت اور تعمیراتی منصوبہ جات میں تعاون کو بڑھانے پر اتفاق رائے بھی کیا۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں ممالک 2020ء تک باہمی تجارت کا حجم سو بلین یورو تک کرنے کے خواہاں ہیں جبکہ اس وقت یہ 33 بلین یورو سالانہ بنتا ہے۔
ترکی کی گیس کی ضروریات کو پورے کرنے والے ملک روس نے انقرہ حکومت کو یہ یقین بھی دلایا ہے کہ وہ وہاں پہلا جوہری پلانٹ تعمیر کرے گا جبکہ گیس کی قیمتوں میں چھ فیصد تک کمی بھی کرے گا۔ روسی صدر کے دورہ ترکی کے دوران ایک بڑا تجارتی وفد بھی ان کے ہمراہ تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ یوکرائن کے بحران میں ملوث ہونے پر امریکا اور یورپی یونین روس پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کر چکے ہیں۔ انقرہ حکومت بھی یوکرائن کی خود مختاری اور سالمیت کے حق میں ہے لیکن روسی صدر کے ساتھ ملاقات میں ایردوآن نے یوکرائن کے تنازعے پر کوئی بات نہ کی۔
اس تناظر میں انقرہ کی مڈل ایسٹ ٹیکنیکل یونیورسٹی سے وابستہ پروفیسر حسین باچی نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ترکی اور روس بہت سے معاملات پر اختلاف رائے رکھتے ہیں، بالخصوص شام کے تنازعے پر۔ لیکن ترکی اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے روس سے گیس خریدنے کا عمل جاری رکھے گا۔‘‘