جنوبی کوریائی فیری کی غرقابی: مزید لاشیں برآمد
26 اپریل 2014جنوبی کوریا کی حکومت نے غرق شدہ بحری جہاز سے حاصل ہونے والی لاشوں کو مختلف خاندانوں کے سپرد کرنے پر معذرت کی ہے۔ جنوبی کوریا کے ذرائع ابلاغ میں رواں ہفتے کے دوران کئی ایسی رپورٹس شائع ہوئی ہیں اور اُن کے مطابق نعشیں غلط خاندانوں کو حوالے کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس مناسبت سے مقرر کردہ ٹاسک فورس نے اپنی غلطی تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ورثاء کو نعشیں غلطی سے مہیا کی گئی ہی اور ایسا بعض فراہم شدہ شناختوں کے باعث ہوا۔ اب حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ بقیہ نعشوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کے بعد ہی اُن کو درست خاندان کے حوالے کیا جائے گا۔
دوسری جانب ڈوب جانے والی سیاحتی فیری کے اندر پھنسی ہوئی نعشوں کو ڈھونڈنے کا عمل جاری ہے۔ اب تک غوطہ خور 183 لاشیں باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ ابھی بھی 119 مزید لاشوں کی تلاش باقی ہے۔ تلاش کا سلسلہ جاری رکھنے والے حکام کے مطابق فیری کے 111 کمروں میں سے 35 کے اندر غوطہ خور پہنچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں۔ ان حکام کے مطابق ایک بڑے کمرے میں سے 48 لاشیں ملی ہیں اور یہ کمرہ صرف 35 افراد کے لیے مختص تھا۔
جنوبی کوریا کے دورے پر گئے امریکی صدر باراک اوباما نے غرق ہو جانے والے بحری جہاز میں 300 سے زائد اموات پر سوگوار خاندانوں کے لیے تعزیتی پیغام میں صبر اور حوصلے کی تلقین کی ہے۔ جمعے کے روز امریکی صدر نے جنوبی کوریائی صدر کی رہائش گاہ بلُو ہاؤس میں خاتون صدر پاک گُن ہے کو وہ امریکی پرچم دیا جو وائٹ ہاؤس پر فیری کے ڈوبنے والے دن لہرا رہا تھا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اُن کا دورہ ایسے موقع پر ہوا ہے جب ساری قوم گہرے دکھ میں ہے۔ اوباما نے مزید کہا کہ اِس حادثے میں چھوٹے بچوں کی موت ہوئی جن کی ساری عمر ابھی باقی تھی۔ امریکی صدر نے طلبا کی یاد کے لیے ایک پودا بھی دیا جو ڈان وون ہائی اسکول میں لگایا جائے گا۔
سیاحتی فیری سولہ اپریل کو غرق ہوئی تھی اور وہ اُس وقت اِنچان بندرگاہ سے جیجُو کے مشہوری سیاحتی جزیرے کی جانب روانہ تھی۔ ڈوب جانے والوں میں سے 80 فیصد کا تعلق اَنسان شہر کے ایک سکول سے ہے۔ ڈوبنے والے طلبا کا تعلق ڈانووون ہائی اسکول سے ہے۔ ڈوبنے والے بحری جہاز کا نام سیوول تھا۔ فیری کی غرقابی کے سلسلے میں تفتیشی عمل جاری ہے۔ عملے کے گیارہ افراد کو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا جا چکا ہے اور اِن میں کپتان بھی شامل ہے۔