جرمنی میں نسل پرستی: بہتری کے باوجود مسائل موجود
26 فروری 2014اس بارے میں ایک رپورٹ کونسل آف یورپ کے نسل پرستی اور عدم برداشت کے خلاف کمیشن ECRI نے 25 فروری کو جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق جرمن حکام نے گزشتہ کئی برسوں کے دوران ملک میں نئے نازیوں کی سوچ کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بہت سے مؤثر اقدامات کیے ہیں اور ان کامیابیوں کا اعتراف بھی کیا جانا چاہیے۔
اس دوران نسل پرستی اور اجانب دشمنی کے نتیجے میں منافرت اور ایسے پس منظر والے جرائم کی چھان بین کو عدالتی سطح پر فوجداری نوعیت کی قانونی کارروائیوں کا حصہ بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس بہتری کے باوجود نسل پرستی اور اجانب دشمنی ابھی تک ملکی سطح پر پائے جانے والے بڑے مسائل ہیں۔
انتہائی دائیں بازو کے گروپوں کی موجودگی موجودہ جرمن ریاست کے مشرق میں واقع ان وفاقی صوبوں میں خاص طور پر زیادہ اور ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جو ماضی میں سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا حصہ تھے۔
کونسل آف یورپ کے نسل پرستی اور عدم برداشت کے خلاف کمیشن نے اپنی اس رپورٹ میں کہا ہے کہ جرمنی میں نسل پرستی کے معنی عام طور پر بڑے محدود لیے جاتے ہیں۔ اس سوچ کو بالعموم صرف نسل پرستوں کے منظم گروہوں سے مربوط سمجھا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جرمنی میں نسل پرستانہ سوچ اور اجنبیوں سے بیزاری کے رویے ابھی تک بہت واضح طور پر عوامی بحث مباحثوں کا موضوع نہیں بن سکے۔
رپورٹ کے مصنفین نے اس طرح کے سماجی امتیازی رویوں کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ جرمنی میں ہم جنس پرست مردوں اور خواتین اور اپنی جنس بدلوا لینے والے افراد کو اسکولوں، صحت عامہ کے نظام اور روزگار کی منڈی میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ان کے لیے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بنتی ہے۔ مصنفین کے مطابق جرمن معاشرے میں اپنی جنس بدلوا لینے والے افراد کو عام طور پر ’شخصیت اور رویے میں خامیوں کا شکار‘ سمجھا جاتا ہے۔
اس رپورٹ میں کونسل آف یورپ کی طرف سے تجویز پیش کی گئی ہے کہ برلن حکومت کو امتیازی برتاؤ کے خلاف وفاقی جرمن ادارے کے لیے مہیا کردہ مالی وسائل میں اضافہ کرنا چاہیے اور ایسے گروپوں کو ملنے والی مالی امداد کو روکنے کی زیادہ مؤثر قانونی کاوشیں کرنا چاہییں، جو نسل پرستی اور اجانب دشمنی کو ہوا دیتے ہیں۔