جرمنی دوسری مرتبہ انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب
13 نومبر 2012جرمن وزیرخارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے برلن میں کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں ایک مرتبہ پھر منتخب ہونا اس میدان میں جرمنی پر بھروسےکو ظاہر کرتا ہے۔ ان کے بقول انسانی حقوق کا تحفظ جرمنی کے بنيادی مقاصد ميں سے ايک ہے اور رہے گا۔
جرمنی 2006ء سے 2009ء تک انسانی حقوق کی اس کونسل کا رکن رہ چکا ہے۔ اس طرح اس کا شمار اس کونسل کے بنیادی اراکین میں ہوتا ہے۔ کیونکہ اس ادارے کی بنیاد بھی 2006ء میں رکھی گئی تھی۔ اقوام متحدہ میں جرمن سفیر پیٹر وٹٹج نے تمام رکن ممالک کا شکریہ ادا کیا۔ ’’ تین نشستوں کے انتخاب کے لیے پانچ درخواستوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کے گروپ میں مقابلےکی صحت مندانہ فضا قائم ہے‘‘۔
اس کونسل ميں مغربی ممالک کے گروپ کی سات نشستيں، مشرقی يورپ کی چھ، افريقہ کی تيرہ، ايشيا کی تيرہ، لاطينی امريکا کی آٹھ اور کيريبئن ممالک کے لیے آٹھ نشستيں ہيں۔ مغربی ممالک کی تین نشستوں کے لیے پانچ ممالک نے درخواست دی تھی تاہم ان میں سے سویڈن اور یونان کامیاب نہیں ہو سکے۔ جبکہ دیگر خطوں سے اتنی ہی تعداد میں درخواستیں موصول ہوئی تھیں، جتنی نشستیں خالی تھیں۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والے ان انتخابات میں جرمنی 127، امریکا 131 اور آئرلینڈ 124ووٹوں کے ساتھ رکنیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ امر ہے کہ انسانی حقوق کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بننے کے باوجود پاکستان اور برازیل نے امریکا، جرمنی اور آئرلینڈ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ پاکستان کو 171 جبکہ برازیل کو 154 ووٹ ڈالے گئے۔ اقوام متحدہ کے لیے پاکستانی سفیر مسعود خان نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو ایک مضبوط ممینڈیٹ دیا گیا ہے، ’’ایک نئے رکن کے طور پر اسلام آباد حکومت اس کونسل میں اہم کردار ادا کرے گی۔‘‘
اس موقع پر اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سوزن رائس نے کہا کہ امریکا کے دوبارہ منتخب ہونے پر انہں فخر بھی ہے اورخوشی بھی۔ انسانی حقوق کی کونسل کے 47 اراکين کا انتخاب جنرل اسمبلی میں خفيہ ووٹنگ کے ذريعے عمل میں آتا ہے۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم متعدد تنظیموں نے ان انتخابات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، فریڈم ہاؤس اور ہیومن رائٹس واچ کے مطابق اٹھارہ میں سے کم از کم نصف ارکان کو اس کونسل میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے تھا۔ ’’برازیل، کینیا اور سیرالیون کی شمولیت پر تو تحفظات ہیں جبکہ پاکستان، متحدہ عرب امارات، ایتھوپپا، آئیوری کوسٹ، گیبون، قزاقستان اور وینزویلا تو کسی طور پر بھی اس کونسل کے لیے مناسب نہیں ہیں‘‘۔ ہیومن رائٹس واچ کے ماہر پیگی ہکس کے بقول جب تک انسانی حقوق کونسل میں نشست حاصل کرنے کے لیے اصل مقابلہ نہیں ہوتا تب تک اس کی رکنیت کے معیار کے حوالے سے شبہات برقرار رہیں گے۔
ai / ab (AFP, dpa )