تحریک طالبان پاکستان زوال پذیر ہے، تجزیاتی رپورٹ
15 فروری 2013تجزیہ کاروں اور مقامی لوگوں کا خیال ہےکہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی طرف سے حکومت کے ساتھ بات چیت کی پیشکش خوش آئند ہے۔ان مذاکرات سے پاکستان کے شورش زدہ علاقے جوکہ افغانستان کی سرحد تک پھیلے ہوئے ہیں ان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ کے مذاکرات کے ذریعے حل ہونےکے امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔
تحریک طالبان پاکستان کے زیر اثرعلاقوں میں افغان طالبان بھی مبینہ طور پر پناہ لیتے ہیں اور یہی وہ معاملہ جو اکثر اوقات امریکا اور پاکستان کے درمیان تنازعے کی وجہ بنتا ہے۔ پاکستان ہمیشہ افغانستان میں اتحادیوں کے خلاف برسر پیکار افغان طالبان کو کسی قسم کی مالی اور عسکری مدد فراہم کرنے سے انکار کرتا رہا ہے۔
پاکستان نے افغانستان کی سرحد سے ملحقہ ان شورش زدہ قبائلی علاقوں میں ایک لاکھ 20 ہزار فوجی تعینات کر رکھے ہیں اور عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں پاکستان کے اپنے چار ہزار فوجی بھی اب تک مارے جا چکے ہیں۔
تجزیہ نگار، عسکری ماہرین اور مقامی افراد سے بات چیت کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے وسیع قبائلی علاقوں کے ایک چھوٹے سے حصے پر اپنا اثر و رسوخ رکھتی ہے، علاقے میں درجنوں ایسے عسکری گروہ وجود میں آ گئے ہیں جن کے اپنے کمانڈرز ہیں اور ہر کسی کا اپنا اپنا ایجنڈا اور وفاداریاں ہیں۔
دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان، شدت پسند تنظیم میں پھوٹ اور حکیم اللہ محسود کی قیادت کو چیلنج کرنے اطلاعات کو متعدد بار رد کر چکے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں پاکستانی طالبان کی طرف سے قومی انتخابات کی طرف بڑھنے والی کمزور حکومت کو مذاکرات کی حالیہ پیشکش، اپنی اہمیت منوانے کی ایک کوشش ہے۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ کے آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کے خیال میں محسود کی حکومت کو مذاکرات کی پیشکش تنظیم کی اندرونی پھوٹ سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’تحریک طالبان پاکستان شدید تناؤ کی کیفیت میں ہے اور میرے خیال میں مذاکرات کی یہ پیشکش صرف حکیم اللہ محسود اور اس کے کمانڈروں کی طرف سے ہے‘۔ عامر رانا کے خیال میں حکیم اللہ محسود کے چند اہم کمانڈرز اسے چھوڑ چکے ہیں جو اب اسی علاقے میں اپنی اپنی شدت پسند تنظمیں چلا رہے ہیں۔
عسکری تجزیہ نگاروں کے خیال میں محسود کے زیر کمان شدت پسندوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن اصل تعداد کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا۔ ان کے خیال میں اب بھی بڑی تعداد میں غیر ملکی عسکریت پسند حکیم اللہ محسود کے زیر اثر علاقے، شمالی وزیرستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان غیر ملکی شدت پسندوں میں زیادہ تر کا تعلق ازبکستان اور وسط ایشیا کی دیگر ریاستوں سے ہے۔
پاکستان کے عسکری امور کے تجزیہ نگار زاہد حسین نے رواں ہفتے ایک پاکستانی اخبار میں شائع ہونے والےاپنے مضمون میں لکھا ہےکہ طالبان کی مذاکرات کی پیشکش بھونڈے مذاق سے زیادہ کچھ نہیں ہے انہوں نے لکھا ہے کہ حکیم اللہ محسود مذاکرات کی اس پیشکش کے ذریعے عوامی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ زاہد حسین لکھتے ہیں کہ حکیم اللہ محسود ایک قاتل اور مجرم ہے جو اپنی ہی شرائط پر حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔
گزشتہ جمعرات کے روز اسلام آباد میں سیاسی جماعتوں کی امن کانفرنس میں حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی سمیت صوبہ خیبر پختونخواہ میں حکمرانی کرنے والی سیکولر عوامی نیشنل پارٹی نے بھی طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی حمایت کی ہے تاہم مجوزہ مذاکرات کا طریقہ کار نہیں بتایا گیا ہے۔صوبہ خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ہمیں امن کے لیے کی گئی اس پیشکش کو موقع دینا چاہیے۔
محسود قبیلے کے ایک فرد نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ تحریک طالبان قبائلی علاقے میں اپنی حمایت تیزی سے کھو رہی ہے کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کہ انہیں قران و شریعت کی روشنی میں انصاف ملے گا مگر اس جنگ نے ہزاروں لوگوں کے در بدر کر دیا ہے۔
rh/zb(ap)