بھارت کی اقتصادی صورت حال تشویش ناک
13 جولائی 2012خود کو سپر پاور کی صف میں شامل کرنے کی کوششوں میں مصروف بھارت اقتصادی محاذ پر پچھڑتا جارہا ہے۔اس نے رواں سال کے لئے 9 فیصد ترقی کا ہدف مقرر کیا تھا لیکن اس کے 6.5 فیصد سے زیادہ بڑھنے کے امکانات دکھائی نہیں دے رہے ہیں جو گذشتہ نو برسوں کے دوران سب سے کم شرح ہے۔ حکومت ان دنوں معیشت کی خراب صورت حال سے سخت پریشان ہے ۔
سرکاری رپورٹ کے مطابق بھارت میں اس وقت ترقی کی شرح گذشتہ نو برسوں میں گھٹ کر سب سے کم یعنی 6.5 فیصد پر رہ گئی ہے۔ مینوفیکچرنگ سیکٹر میں بھی زبردست گراوٹ آئی ہے اور یہ 5.3 فیصد تک گر چکی ہے جب کہ صنعتی پیدوار کی شرح کو گذشتہ سال 5.3 فیصد اور اس سال گرکر 0.1 فیصد پر آگئی ہے۔
متحدہ ترقی پسند اتحاد(یو پی ای) حکومت کے صدارتی امیدواربننے کے بعد وزیر خزانہ پرنب مکھرجی کے اپنے عہدہ سے استعفی دینے کے بعد وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن نے وزارت خزانہ کی ذمہ داریاں بھی اپنے ہاتھوں میں لے لی ہیں اور انہوں نے اقتصادی صورت حال میں امیدیں جگانے کے حوالے سے کئی بیانات بھی دئے ہیں تاہم حکومت کی منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مونٹیک سنگھ آہلوالیہ نے معیشت کے عنقریب بہتر ہونے کے امکانات کو یکسر مستر د کرتے ہوئے واضح لفظوں میں کہا ہے کہ آئندہ پانچ برسوں میں بھی نو فیصد کی اوسط ترقی کی شرح تک پہنچنا ممکن نہیں ہے حتٰی کہ آٹھ فیصد کی اقتصادی ترقی کی شرح حاصل کرنے کے لئے حکومت کو خصوصی اقدامات کرنا ہوں گے۔
معاشی امور کے ماہر سابق ممبر پارلیمنٹ نیلوتپل باسو نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک کی خراب اقتصادی صورت حال کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت عوام کے حقیقی مسائل اور ضروریات کو نظر انداز کرکے صرف غیر ملکی کمپنیوں اور کارپوریٹ گھرانوں کے مفادات کو ترجیح دے رہی ہے۔اس کا فطری اثر ترقی کی شرح پر پڑ رہا ہے اور امیر او رغریب کے درمیان خلیج بڑھتی جارہی ہے۔اس دوران امریکی تھنک ٹینک پیو ریسرچ سینٹر نے اکیس ملکوں میں کرائے گئے سروے کی بنیاد پر اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت میں جہاں 2011 ء میں 51 فیصد عوام ملک کی صورت حال سے مطمئن تھے جب کہ 2012 ء میں ایسے لوگوں کی تعداد گھٹ کر 38فیصد رہ گئی ہے۔
حالانکہ وزیر داخلہ اور سابق وزیر خزانہ پی چدمبرم نے امید ظاہر کی ہے کہ اس بحران سے ملک کو جلد ہی نجات مل جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ڈاکٹر من موہن سنگھ ہی ہیں جنہوں نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے ملک میں اقتصادی اصلاحات کا آغاز کیا تھا اور ملک کو قرض کے بحران سے باہر نکا لا تھا۔ دوسری طرف ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے لئے حکومت کو کئی سخت اقدامات کرنا ہوں گے ۔ ان میں غیرملکی راست سرمایہ کاری‘ Disinvestmnent اورسبسڈی کو کم یا ختم کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ لیکن یہ حکومت کے لئے آسان نہیں ہوگا۔ اپوزیشن پارٹیوں کی طرف سے اس کی جو مخالفت ہوگی وہ تو اپنی جگہ خود حلیف جماعتوں کی مخالفت کی وجہ سے حکومت کئی اہم قوانین پارلیمنٹ میں لانے میں ناکام رہی ہے۔ سابق وزیر خزانہ پرنب مکھرجی اس کا برملا اعتراف بھی کرچکے ہیں۔ حکومت کی سب سے بڑی حلیف ترنمول کانگریس نے پچھلے دنوں پٹرول کی بڑھتی ہوئی قیمت کو واپس لینے کے لئے حکومت کو مجبور کردیا ۔ اس نے انشورنس سیکٹر میں ایف ڈی آئی اور فیوچر ٹریڈنگ ضابطوں میں ترمیم کرنے کی حکومت کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔
نیلوتپل باسو کا کہنا ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے کے لئے حکومت کو بڑے پیمانے پر سرکاری سرمایہ کاری کرنی ہوگی۔ اسے عوام کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے سماجی شعبہ میں سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور عوام کو بااختیار بنانا ہوگا تبھی بھارت دنیا میں پائے جانے والے اقتصادی بحران کے منفی اثرات سے بچ سکے گا۔
رپورٹ: افتخار گیلانی‘ نئی دہلی
ادارت: کشور مصطفیٰ