بھارت: اطالوی یرغمالی کی رہائی کی کوششیں
5 اپریل 2012سیاحوں کے لیے گائیڈ کے طور پر کام کرنے والے اطالوی شہری پالو بوسیسکو کو اُس کے ایک اور ہم وطن کلاڈیو کولانجیلو کے ہمراہ 14 مارچ کو ریاست اُڑیسہ میں اغوا کر لیا گیا تھا اور یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ باغیوں نے اپنی کارروائیوں کے دوران غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا تھا۔ کلاڈیو کولانجیلو کو 25 مارچ کو رہا کرتے ہوئے صحافیوں کے ایک گروپ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
باغیوں نے بوسیسکو کو بدستور اپنے قبضے میں رکھا ہوا ہے اور وہ دیگر باتوں کے علاوہ یہ مطالبات بھی کر رہے ہیں کہ متعدد قیدیوں کو رہا کیا جائے اور یہ کہ سرکاری سکیورٹی فورسز باغیوں کے خلاف آپریشنز کا سلسلہ روک دیں۔
اڑیسہ کے وزیر اعلیٰ نوین پاٹک نے باغیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بوسیسکو کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں اور اُسے رہا کر دیں۔ اپنے ایک تحریری بیان میں پاٹک نے کہا ہے:’’ریاستی حکومت نے چاسی مولیا آدیواسی سَنگھ کے پندرہ ارکان کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کے آٹھ انتہا پسندوں کو بھی جیل سے رہا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
چاسی مولیا آدیواسی سَنگھ کسانوں اور مزدوروں کی ایک تنظیم ہے۔ حکومت کو شبہ ہے کہ اس تنظیم کے کچھ ارکان کے ماؤ نوازوں کے ساتھ رابطے ہیں تاہم یہ تنظیم اس الزام کو رَد کرتی ہے۔
ماؤ نوازوں کا کہنا ہے کہ اِن اطالوی شہریوں کو اُس وقت اغوا کیا گیا تھا جب وہ ریاست کے ضلع کندھامل میں ایک دریا میں نہانے والی مقامی قبائلی خواتین کی تصاویر بنا رہے تھے۔ ماؤ نوازوں نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ قبائلی علاقوں میں سیاحوں کا داخلہ بند کیا جائے، خواہ وہ بھارتی ہوں یا غیر ملکی۔
ماؤ نواز باغی نکسل بھی کہلاتے ہیں اور وہ وسطی اور مشرقی بھارت میں حکومت کے خلاف گزشتہ کئی عشروں سے مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ وہ یہ جدوجہد غریب اور بے زمین انسانوں کے لیے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماؤ نواز اراضی کے تنازعات کے سلسلے میں بڑے کاروباری اداروں کے مقابلے پر کسانوں کی پشت پناہی بھی کرتے ہیں۔
حکومت ان باغیوں کو داخلی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ اور ایشیا کی تیسری بڑی معیشت میں اقتصادی ترقی اور ملازمتوں کے مزید مواقع کی راہ میں ایک رکاوٹ قرار دیتی ہے۔
چار عشروں سے چلے آ رہے اس تنازعے میں اب تک ہزاروں انسان مارے جا چکے ہیں تاہم گزشتہ چند برسوں کے دوران پُر تشدد واقعات میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ماؤ نواز باغی اغوا کے اِن واقعات کے ذریعے اپنے علاقے کی قبائلی آبادی کی حالتِ زار کی طرف توجہ دلانا چاہتے ہیں۔ یہ علاقہ بھارت کے غریب ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔
(aa/at (Reuters)