بھارتی گاؤں میں خواتین کے موبائل فون استعمال پر پابندی
5 دسمبر 2012پٹنہ سے ملنے والی خبر ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گاؤں کی پنچایت نے یہ فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ خواتین کی طرف سے ’موبائل فون کے استعمال سے سماجی ماحول خراب‘ ہو رہا تھا اور خواتین کے ’محبت میں گرفتار ہو کر گھروں سے بھاگ جانے کے واقعات میں اضافہ‘ ہو رہا تھا۔ روئٹرز کے مطابق گاؤں کی کونسل نے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ اس رجحان کے خلاف مقامی افراد کی طرف سے اشتعال میں آ کر کیے جانے والے مظاہروں کو روکا جا سکے۔
جس گاؤں میں خواتین اور نوجوان لڑکیوں کی طرف سے موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگائی گئی ہے، اس کا نام سندر باری ہے اور وہاں کی آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ یہ گاؤں بہار کے ریاستی دارالحکومت پٹنہ سے 385 کلو میٹر مشرق کی طرف واقع ہے۔
سندر باری کی دیہی پنچایت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ اب اگر اس گاؤں میں کوئی غیر شادی شدہ عورت یا نوجوان لڑکی سرعام موبائل فون استعمال کرتی ہوئی دیکھی گئی، تو اسے دس ہزار بھارتی روپے یا 180 امریکی ڈالر کے برابر جرمانہ بھی کیا جا سکے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے اگر سرعام فون استعمال کرنے والی خاتون کوئی شادی شدہ عورت ہوئی تو اسے جرمانے کے طور پر دو ہزار روپے یا 36.6 امریکی ڈالر کے برابر رقم ادا کرنا ہو گی۔
سندر باری میں خواتین کی طرف سے موبائل فون کے استعمال کو روکنے کے لیے ایک نئی مقامی کمیٹی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ کا نام منور عالم ہے، جو ایک سرکردہ مقامی شخصیت ہیں۔ منور عالم نے اس بارے میں بتایا، ’جب کوئی یہ پوچھے کہ اس مرتبہ کون کس کے ساتھ بھاگ گیا ہے، تو ہمیں بہت زیادہ شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے۔‘
منور عالم کے مطابق سندر باری میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران شادی شدہ افراد کے معاشقوں اور گھروں سے بھاگ جانے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس عرصے کے دوران کم از کم چھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں اپنے گھروں سے بھاگ گئیں۔
سندر باری کی اس نئی قائم کردہ مقامی کمیٹی کے سربراہ منور عالم نے روئٹرز کو بتایا، ’اب تو شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہروں کو چھوڑ کو اپنے عاشقوں کے ساتھ فرار ہونے لگی ہیں۔ یہ ہمارے لیے بڑی ہی شرم کی بات ہے۔ اس لیے ہم نے اس رجحان کا سختی سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ موبائل فون سماجی ماحول اور اخلاقیات کو تباہ کر رہے ہیں ۔‘
سندر باری اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے مقامی حکومتی اہلکاروں نے اس بارے میں چھان بین شروع کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحت مند معاشرے میں ایسی پابندیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں نے اس مقامی پابندی کو عورتوں کی آزادی پر حملے کا نام دیا ہے۔
ان سماجی کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ ایسی پابندیوں سے نہ صرف خواتین کو نقصان پہنچ سکتا ہے بلکہ وہ ممکنہ طور پر اپنی حفاظت کے ایک اہم ذریعے سے بھی محروم ہو جائیں گی۔ ان کارکنوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی عورت یا لڑکی کو اپنی سلامتی کے سلسلے میں کسی مرد کی وجہ سے خطرہ ہو تو موبائل فون کے ذریعے وہ کم از کم اپنے لیے مدد طلب کر سکتی ہے۔
اس موضوع پر مقامی ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں بحث میں حصہ لیتے ہوئے سُمن لال نامی ایک خاتون کارکن نے کہا کہ عورتیں اور لڑکیاں خود اپنی حفاظت کر سکنے کے اچھی طرح قابل ہیں۔ یہ پابندی اس لیے بیزار کن ہے کہ ٹیکنالوجی تو استعمال کرنے کے لیے ہوتی ہے نہ کہ پابندیاں لگائے جانے کے لیے۔‘
محمد اسلام نامی ایک مرد کارکن نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں کی کمیٹی نے موبائل فون پر پابندی تو لگا دی ہے لیکن ساتھ ہی موبائل فون ٹیکنالوجی کے بہت سے فائدوں کو بھی سرے سے نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گاؤں کی ہر لڑکی کے پاس ایک موبائل فون ہونا چاہیے تاکہ وہ ضرورت پڑنے پر اپنے گھر والوں سے فوری رابطہ کر سکے۔
(ij / ia (Reuters