کشمیر: ٹارگٹ کلنگ کا خوف اور حکومت کی پریشانی
3 جون 2022بھارت کے زیر انتظام خطہ جموں و کشمیر میں دو جون جمعرات کو ٹارگٹ کلنگ کے دو مختلف واقعات میں بینک کے ایک مینیجر سمیت دو افراد فائرنگ میں ہلاک ہو گئے جبکہ تیسرا شخص اسپتال میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا ہے۔
وادی کشمیر میں گزشتہ ایک ہفتے کے اندر ٹارگٹ کلنگ کے آٹھ واقعات پیش آ چکے ہیں اور اس برس اب تک درجن بھر سے بھی زیادہ افراد ایسے حملوں میں ہلاک ہو چکے ہیں، جس کی وجہ سے کشمیر میں خوف و ہراس کے ماحول میں اضافہ ہوا ہے۔ اسی صورت حال پرغوروخوض کے لیے مرکزی حکومت نے کشمیر کے لیفٹننٹ گورنر منوج سنہا کو دہلی طلب کیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق آج جمعے کے روز ہونے والی اس میٹنگ میں قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور محکمہ انٹیلجنس کے حکام سمیت کئی سینیئر حکام شرکت کریں گے۔ اس میٹنگ میں کشمیری پنڈتوں کے تحفظ کے معاملے پر خاص طور پرغور ہوگا، جو خوف کے سبب وادی چھوڑنے لگے ہیں۔
ایک روز قبل بھی اجیت ڈوبھال نے اعلی انٹیلیجنس حکام کے ساتھ تبادلہ خیال کیا تھا۔
ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ
جمعرات کو جنوبی کشمیر کے ضلع کولگام میں ایک حملہ آور نے بینک کے ایک ہندو ملازم کو ان کے دفتر میں ہی پستول سے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ان کا تعلق ریاست راجستھان سے تھا۔ اس کے چند گھنٹوں بعد ہی، رات کے وقت، وسطی کشمیر میں دو بیرونی مزدوروں کو گولی مار دی گئی، جن میں سے ایک اسپتال میں ہلاک ہو گیا، جبکہ دوسرا اب بھی زندگی و موت سے نبرد آزما ہے۔
اس سے قبل منگل کو اسی علاقے میں اسکول کی ایک ہندو خاتون ٹیچر کو بھی اسی طرح فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ ہفتے اسی طرز کی تین ٹارگٹ کلنگ میں تین آف ڈیوٹی پولیس اہلکاروں اور کشمیری اداکارہ کو بھی ہلاک کر دیا گیا، جو سب کے سب مسلمان تھے۔
گزشتہ ماہ ضلع بانڈی پورہ میں ایک سرکاری ملازم کشمیری پنڈت راہول بھٹ کو بھی ہدف بنا کر فائرنگ میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس کی وجہ سے کشمیری پنڈتوں میں خوف و ہراس کا ماحول ہے اور وہ اپنی برادری کو وادی سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے مطالبے کے ساتھ کئی دنوں سے احتجاجی دھرنے پر بیٹھے ہیں۔
کیا صورت حال نوے کی دہائی سے بھی خراب ہے؟
تازہ واقعات کے بعد کشمیری پنڈتوں کے احتجاج میں مزید شدت آئی ہے اور وادی کشمیر میں کام کرنے والے بہت سے ہندو خاندان اب ہندوؤں کے اکثریتی علاقے جموں کی جانب کوچ کرنے لگے ہیں۔
ادھر حکومت کشمیری پنڈتوں کو وادی نہ چھوڑنے کی اپیل کر رہی ہے اور انہیں کشمیر سے باہر جانے اجازت نہیں دے رہی ہے۔ جن کیمپوں میں کشمیری پنڈت مقیم ہیں، انہیں فی الوقت سیل کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ آئندہ چند روز کے اندر ان کی بہتر سکیورٹی کا بند وبست کر دیا جائے گا۔
لیکن ہلاکتوں کے تازہ واقعات کے سبب کشمیری پنڈتوں کی طرف سے اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے مطالبات زور پکڑتے جا رہے ہیں۔ جمعرات کو سینکڑوں کشمیری پنڈتوں نے سری نگر اور دیگر حصوں میں احتجاج کیا۔
ایک سرکاری ملازم امیت کول نے بھارتی میڈیا سے بات چیت میں، بینک مینیجر اور بہار کے ایک مزدور کے قتل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشمیر میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ''اب تک تیس سے چالیس خاندان (کشمیری پنڈت) شہر چھوڑ چکے ہیں کیونکہ ان کے مطالبات پورے نہیں ہوئے۔''
ایک اور کشمیری پنڈت کا کہنا تھا، ''آج کا کشمیر سن 1990 کی دہائی سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ہمارے لوگوں کو ہماری کالونیوں میں بند کیوں کر دیا گیا؟ انتظامیہ اپنی ناکامی کیوں چھپا رہی ہے؟''
ایک دیگر کشمیری پنڈت کا کہنا تھا، ''یہاں تو اب سکیورٹی اہلکار بھی محفوظ نہیں ہیں، تو عام شہری کیسے سلامت ہوں گے۔ مزید خاندان شہر (سرینگر) چھوڑ دیں گے۔ کشمیری پنڈتوں کے کیمپوں کو پولیس نے سیل کر دیا ہے۔''
کشمیری پنڈت برادری کے ایک رکن نے سوشل میڈیا پر اپنی ایک ویڈیو پوسٹ میں کہا، ''حکومت نے ہمیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔ ہم سب خوفزدہ ہیں۔ یہ کشمیر میں سیکورٹی کی ناکامی ہے۔ ہم ایل جی (لیفٹیننٹ گورنر) سے التجا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں جموں کے لیے روانہ ہونے دیں۔''
کیا کشمیر میں حالات نارمل ہیں؟
بھارت میں ہندو قوم پرست بی جے پی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعدکشمیر میں، جو سخت پالیسیاں اپنائی ہیں، اس سے تشدد میں کمی آئی ہے اور اب حالات معمول پر واپس آ رہے ہیں۔ تاہم ہند نواز دیگر سیاسی جماعتیں اس دعوے کو مسترد کرتی ہیں۔
کشمیر کے سیاسی رہنماؤں نے اس بد تر صورت حال کے لیے مودی حکومت پر شدید تنقیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ کشمیر میں امن و قانون کی اس بگڑتی صورت حال میں بھی کیا حکومت حالات کے نارمل ہونے کا دعوی کرے گی۔ ہندو نواز سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ کشمیر میں فورسز کی اتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجود تشدد اپنے عروج پر ہے۔
بھارتی حکومت نے سن 2010 میں خصوصی روزگار پیکیج کے ایک پروگرام کے تحت کشمیری پنڈتوں کو کشمیر میں سرکاری ملازمتیں دینی شروع کی تھیں۔ اس طرح کے چار ہزار سے زیادہ کشمیری پنڈت کشمیر کے مختلف حصوں میں ٹرانزٹ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔
لیکن دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے ان کے خلاف بھی تشدد شروع ہوا اور گزشتہ اکتوبر سے ہی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس میں سے بیشتر متاثرین باہر سے آنے والے مزدور اور کشمیری پنڈت ہیں، جو کام اور ملازمت کی تلاش میں کشمیر میں تھے۔