بھارتی پارلیمان کا بجٹ اجلاس اور شیم شیم کے نعرے
31 جنوری 2020پارلیمانی اجلاس کے پہلے روز حکومت نے اپنا اقتصادی جائزہ پیش کیا اور کہا ہے کہ اس برس مجموعی ملکی پیداوار صرف پانچ فیصد تک رہے گی جبکہ آئندہ برس کے اوائل میں اس میں اضافے کا امکان ہے اور مارچ 2021 تک ترقی کی شرح چھ سے ساڑھے چھ فیصد کے درمیان ہوگی۔ گزشتہ برس حکومت نے اپنے اقتصادی جائزے میں اس برس کے لیے سات فیصد کی رفتار سے معاشی ترقی کی بات کہی تھی جسے اب گھٹا کر پانچ فیصد کر دیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق یہ حکومت کے تخمینوں سے بہت کم ہے۔
بھارت کو گزشتہ ایک عشرے میں بدترین قسم کی معاشی سست روی کا سامنا ہے اور حکومت نے اپنے اقتصادی جائزے میں کہا ہے کہ عالمی سطح پر جاری تجارتی کشیدگی بھارت کی برآمدات کو بری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ اس وقت ملک میں بڑے پیمانے پر بے روزگاری پائی جاتی ہے۔
بھارتی صدر رام ناتھ کوند نے بجٹ اجلاس کے پہلے روز پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے خطاب کرتے ہوئے ہوئے نریندر مودی حکومت کی ترجیحات اور کامیابیوں کا جائزہ پیش کیا۔ صدر نے شہریت سے متعلق اس نئے قانون کی تعریف کی جس کے خلاف اس وقت ملکی سطح پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ انھوں نے کہا، ’’گاندھی جی نے خود کہا تھا کہ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بسنے والی مذہبی اقلیتیں اگر پناہ چاہتی ہوں تو انھیں بھارتی شہریت دینی چاہیے۔ ہمیں بابائے قوم کی اس خواہش کا احترام کرتے ہوئے اسے پورا کرنا چاہیے، اور ہمیں خوشی ہے کہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے شہریت ترمیمی ایکٹ کو منظور کیا۔‘‘
صدر رام ناتھ کوند کی ان باتوں پر حکمراں جماعت بی جے پی کے ارکان نے اس قدر تالیاں بجائیں کہ انھیں اپنی تقریر روکنا پڑی، لیکن اسی دوران حزب اختلاف کی جماعتوں کے ارکان کھڑے ہوگئے اور نعرہ لگانا شروع کیا، ’’شرم کرو شرم کرو‘‘۔ بجٹ اجلاس سے قبل صدر کا خطاب ایک پارلیمانی روایت ہے اور حزب اختلاف نے اس موقع پر سامنے والی سیٹوں کا بیائکاٹ کرکے پیچھے بیٹھ کر اس کا احتجاج کیا۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ صدر نے اس بار اپنے خطاب میں این آر سی (نیشنل رجسٹر فار سٹیزن) کا ذکر تک نہیں کیا جبکہ گزشتہ برس کے اسی اجلاس میں انھوں نے اس موضوع پر تفصیل سے بات کی تھی اور کہا تھا کہ یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ملک بھر میں شہریت ترمیمی قانون کے ساتھ ساتھ این آر سی کے خلاف بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ پارلیمان کے پچھلے اجلاس میں وزیر داخلہ امیت شاہ نے کہا تھا کہ پہلے شہریت ترمیمی قانون نافذ ہوگا اور پھر این آر سی کا نفاذ ہوگا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی منشاء یہ ہے کہ پہلے وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے تحت ان تمام ہندوؤں کو بھارتی شہریت مہیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو پڑوسی ممالک سے بھارت آئے ہیں اور پھر این آر سی کے تحت جن افراد کے پاس دستاویزات نہیں ہیں انھیں شہریت سے محروم کرنا چاہتی ہے۔ چونکہ شہریت سے متعلق نئے قانون میں غیر مسلموں کے لیے بھارتی شہریت کا راستہ آسان کر دیا گيا ہے اس لیے صرف مسلم برادری ہی این ار سی سے متاثر ہوگی اور اسے شہریت سے محروم ہونا پڑے گا۔ جو افراد این آر سی کے لیے دستاویزات مہیا نہیں کریں گے انھیں حراستی مراکز میں رکھا جائے گا جو فی الوقت کئی ریاستوں میں زیر تعمیر ہیں۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پارلیمان کے اس اجلاس کے ہنگامہ خیز ہونے کا امکان ہے۔ اجلاس سے قبل کل جماعتی میٹنگ میں حکمران جماعت کی ایک اتحادی پارٹی اکالی دل نے شہریت قانون کی مخالفت کا اعلان کیا ہے۔ ملک میں اس وقت بے روزگاری کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اور ظاہر ہے کہ ان تمام امور پر حزب اختلاف اور حکمراں اتحاد کے درمیان تلخ بحث کا امکان ہے۔